ماضی کے ’’بت شکن‘‘ طالبان اب ’’بتوں‘‘ کے محافظ کیسے بن گئے؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغانستان میں طالبان کی پچھلی حکومت نے ملک میں بدھا کے مجسموں کو مسمار کردیا تھا۔ طالبان کے خیال میں یہ مجسمے اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرک کی علامت تھے تاہم ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ طالبان ان مجسموں کے کھنڈرات کو ٹورزم کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جسے “طالبان جن کو پیسوں کی ضرورت ہے وہ بدھا کے مجسموں کے وزٹ کے لیے ٹکٹ بیچتے ہیں جنہیں انہوں نے اڑا دیا تھا” کا عنوان دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی پچھلی حکومت نے بدھا کے مجسموں کو کھنڈرات میں بدل دیا تھا مگر موجودہ حکومت انہی مجسموں کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کو ٹکٹ فروخت کررہی ہے۔

اخباری رپورٹ میں بتایا گیا کہ 125 فٹ اونچی پتھر کی وہ پہاڑی اب خالی پڑی ہے جہاں کبھی افغانستان میں بدھا کے سب سے اونچے مجسمے موجود تھے لیکن طالبان نے ملک پر قبضے کے پہلے مرحلے میں ان مجسموں کو تباہ کر دیا۔

اس تاریخی علاقے میں محمد نامی طالبان کمانڈر کے مطابق یہ مجسمے افغانستان کی علامتوں میں سے تھے اور انہیں تباہ نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ اس جگہ کو دوبارہ تعمیر کیا جانا چاہیے۔

2001 میں طالبان کے بانی ملا محمد عمر نے بدھا کے مجسموں کو جھوٹے دیوتا قرار دیتے ہوئے انہیں مسمار کرنے کا حکم دیا تھا۔

جب طالبان تحریک کے خلاف عالمی برادری کا احتجاج جاری تھا مگر طالبان نے عالمی احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے بدھا کے مجسموں پر دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

مسجد کی بے حرمتی کیخلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر بھارتی پولیس نے کوڑے برسا دیے

ان منفرد یادگاروں پر حملے نے اس وقت عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور طالبان کو انتہا پسندوں کے طور پر دنیا میں ناقابل قبول بنا دیا تھا۔

“واشنگٹن پوسٹ” نے مزید کہا کہ لیکن اب طالبان کے اطلاعات و ثقافت کے موجودہ نائب وزیر عتیق اللہ عزیزی کا کہنا ہے کہ بدھا کے مجسمے ان کی حکومت کے لیے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس جگہ کی حفاظت کے لیے ایک ہزار سے زائد افراد کو مختص کیا گیا ہے۔

بامیان میں طالبان کے میڈیا اور ثقافت کے مقامی سربراہ سیف الرحمان محمدی نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ گذشتہ سال 200,000 سیاحوں نے جن میں سے زیادہ تر افغان تھے بامیان صوبے کا دورہ کیا۔ ہر ایک نے اوسطاً 57 ڈالر خرچ کیے اور یہ آمدن طالبان حکومت کو ملی تھی۔

Related Posts