اسرائیلی وزیر دفاع یوآو کاٹز نے فلسطینی تنظیم حماس کے سابق رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل میں اسرائیل کے کردار کا اعتراف کیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کو رواں سال 31 جولائی کو ایران کے دارالحکومت تہران میں نشانہ بنایا گیا تھا، جہاں وہ ایران کے نئے صدر مسعود پزیشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کر رہے تھے۔ یہ انکشاف ایران کی وزارت دفاع کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب کے دوران یوآو کاٹز کے خطاب میں ہوا۔
بین الاقوامی خبروں کے مطابق، کاٹز نے اپنے خطاب میں کہا: “ہم یمن میں حوثیوں پر شدید حملے کریں گے۔ ہم ان کی قیادت کو ختم کریں گے، جیسا کہ ہم نے اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور حسن نصراللہ کو تہران، غزہ اور لبنان میں نشانہ بنایا۔ ہم یہی حکمت عملی حدیدہ اور صنعاء میں بھی اپنائیں گے۔”
یورپی یونین کے بعد امریکا اور برطانیہ کابھی فوجی عدالتوں سے سزاؤں پر اظہار تشویش
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اسرائیلی عہدیدار نے اسماعیل ہنیہ کے قتل میں ملک کے ملوث ہونے کا کھلے عام اعتراف کیا ہے۔ اسرائیل پہلے بھی حماس کے دیگر رہنماؤں جیسے یحییٰ سنوار اور حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ پر حملوں میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کر چکا ہے، لیکن ہنیہ کے قتل کی یہ پہلی سرکاری تصدیق ہے۔
اس قتل کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ ایران نے اس واقعے کے جواب میں اکتوبر میں اسرائیل پر میزائل حملے کیے۔ ایران کا کہنا تھا کہ یہ حملے ان اہم شخصیات کے قتل کا ردعمل تھے، جن میں اسماعیل ہنیہ بھی شامل تھے۔
حماس نے اسماعیل ہنیہ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیل کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے اس قتل کو ایک بزدلانہ کارروائی قرار دیا اور اعلان کیا کہ اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ “یروشلم کی آزادی کی جدوجہد ایک کھلی جنگ میں تبدیل ہو گی اور حماس اس مقصد کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔”
اس واقعے کے ساتھ ہی 19 دسمبر کو اسرائیل نے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے، جن میں بندرگاہیں، تیل کی تنصیبات اور بجلی کے مراکز شامل تھے، جس کے نتیجے میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے۔