اسرائیل کے صحرائے نقب کے کنارے واقع ایک شہر، دیمونا میں وہ 24 سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کے آٹھ بچے یہاں پیدا ہوئے اور وہ کسی دوسرے ملک سے واقف نہیں۔ اب انہیں اور یروشلم کی افریقی عبرانی اسرائیلی برادری کے دیگر 130 غیر دستاویزی ارکان کو جلاوطنی کا سامنا ہے۔
53 سالہ اسرائیل کے لیے دو سال قبل ملک چھوڑ دینے کا حکم ایک “بے یقینی کا لمحہ” تھا۔ انہوں نے کہا کہ “مجھے لگتا ہے کہ حکومت مجھ سے اور میرے آٹھ بچوں سے بے رحمی کر رہی ہے۔”
مذکورہ مذہبی برادری کے لوگ، جو عموماً عبرانی اسرائیلی کے نام سے معروف ہیں، پہلی مرتبہ 1960ء کے عشرے میں امریکہ سے یہاں آئے۔ یہ ارکان اسرائیل سے آبائی تعلق کے دعوے دار ہیں جبکہ یہ خود کو یہودی نہیں سمجھتے۔
تقریباً 3000 عبرانی اسرائیلی جنوبی اسرائیل کے دور دراز اور نہایت کم آمدن والے قصبات میں رہتے ہیں۔ ولیج آف پیس اس برادری کا مرکز ہے جو دیمونا میں سبزیوں کے قطعات اور بے داغ باغوں میں گھرا ہوا نیچی عمارات کا ایک غول ہے۔
کئی عشروں میں عبرانی اسرائیلیوں نے اسرائیلی معاشرے میں بتدریج جگہ بنا لی ہے۔ افسر شاہی سے سالوں کے جھگڑے اور مباحثے کے بعد تقریباً 500 ارکان اسرائیلی شہریت اور باقی میں سے زیادہ تر مستقل رہائش رکھتے ہیں۔
لیکن تقریباً 130 افراد کو کوئی رسمی حیثیت حاصل نہیں اور اب انہیں جلاوطنی کا سامنا ہے۔ چند لوگوں کے پاس غیرملکی پاسپورٹ نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تمام بالغ عمر اسرائیل میں گذاری ہے اور جانے کو کوئی اور جگہ نہیں۔
اپنی حیثیت کو محفوظ بنانے کے لیے برادری کی طویل جدوجہد اسرائیل کی سخت امیگریشن پالیسی پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ پالیسی جن لوگوں کو یہودی سمجھتی ہے، انہیں تو خودکار شہریت دیتی ہے لیکن جو لوگ اس تعریف کے زمرے میں نہیں آتے، ان کے داخلے کو محدود کرتی ہے۔
افریقی عبرانی اسرائیلی امریکہ میں سیاہ فام مذہبی گروہوں کے ایک برج میں سے ایک ہیں جو 19 ویں اور 20 ویں صدی کے آخر میں سامنے آئے، اور عیسائیت، اور یہودیت سے متأثرہ عقائد کے وسیع سلسلے پر محیط ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
سیلاب نے تباہی مچا دی، چترال کی تاریخی شاہی مسجد کو شدید خطرہ لاحق
اے ڈی ایل اورSouthern Poverty Law Center کے مطابق، امریکہ میں کچھ فرنگی سیاہ فام عبرانی گروہ انتہا پسندانہ یا سام دشمن خیالات کے حامل ہیں۔ ڈیمونا کی کمیونٹی ایسے عقائد کی تائید نہیں کرتی۔
جنوبی کیرولینا کی کلافلن یونیورسٹی میں افریقی اور افریقی امریکی علوم کے پروفیسر، آندرے بروکس-کی نے کہا کہ یہ مختلف مذہبی برادریاں ایک مشترکہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ بعض افریقی لوگ بائبل کے بنی اسرائیل کی اولاد ہیں اور یہ کہ ماورائے اوقیانوس غلاموں کی تجارت کی پیشن گوئی انجیل میں کی گئی تھی۔
بروکس-کی نے کہا کہ “وہ حضرت عیسیٰ کے متعلق کیا خیال کرتے ہیں، کیسا لباس پہنتے ہیں، اور دیگر پہلو خواہ کوئی بھی ہوں، جو انہیں ایک ساتھ جوڑے رکھتا ہے، وہ یہ مذہبی نکتہ ہے۔”
عبرانی اسرائیلیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ اسرائیل کے بائبل کے قبائل کی اولاد ہیں جو 70 عیسوی بعد مسیح میں رومیوں کی فتح کے بعد، دریائے نیل اور اندرون افریقہ میں مغرب کی طرف بھاگ گئے اور بالآخر صدیوں بعد انہیں بطورِ غلام شمالی امریکہ لے جایا گیا۔
وہ بائبلی قوانین کی تشریح پر غور کرتے ہیں جو ان کے آنجہانی بانی نے وضع کی تھی جس میں سخت سبزی خوری، تمباکو اور سخت الکحل سے پرہیز، سبت کے دن روزہ رکھنا، تعدد ازدواج، اور مصنوعی کپڑے پہننے پر پابندی شامل ہے۔
کمیونٹی کی ویب سائٹ کے مطابق، اس گروپ کے شکاگو میں پیدا ہونے والے روحانی پیشوا، بین امی بین اسرائیل نے کہا کہ انہیں 1966ء میں فرشتہ جبرائیل کی طرف سے ایک تصور ملا تھا کہ بنی اسرائیل کے سیاہ فام افراد کو “وعدہ شدہ سرزمین پر واپس آنا اور خدا کی بادشاہت قائم کرنی چاہیے”۔
لائبیریا میں ایک مختصر مدت کے بعد، بین اسرائیل اور پیروکاروں کے کئی درجن خاندان 1968ء میں اسرائیل آ پہنچے۔
بین اسرائیل 75 سال کی عمر میں 2014ء میں فوت ہو گئے اور ایک مسیحی شخصیت، احمدیل بن یہوداہ، کمیونٹی کے ایک بزرگ اور ترجمان کے طور پر قابل احترام ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
افغانستان نے اپنی سافٹ ڈرنک بنالی، پہلی برآمدی کھیپ امریکا روانہ
انہوں نے کہا کہ “ہم اپنی قبائلی وابستگی کے اعتبار سے یہودی ہیں۔ ایک طویل روایت اور ثقافتی روابط کا تسلسل ہے جس کی بنا پر اس سرزمین میں ہماری جڑیں ہیں۔ ہم صرف آسمان سے نہیں ٹپکے۔”
ان لوگوں کی آمد کے فوراً بعد، عبرانی اسرائیلیوں کے قانونی مسائل شروع ہو گئے۔ اسرائیل نے ابتدا میں انہیں شہریت دی تھی لیکن بعد میں جب واپسی کا قانون تبدیل ہو گیا تو شہریت کو منسوخ کر دیا۔ واپسی کا قانون یہودیوں کو خودکار شہریت دیتا ہے۔
وہ 1990ء کے عشرے کے اوائل تک غیر قانونی غیرملکی ہی رہے، ان میں سے کچھ اپنی امریکی شہریت ترک کرنے کے بعد بے وطن ہو گئے تھے۔ پھر انہیں اسرائیلی عارضی رہائش ملنا شروع ہوئی۔
2002ء میں ایک اہم موڑ آیا، جب ایک فلسطینی مسلح شخص نے bat mitzvah پارٹی میں چھ افراد کو ہلاک کر دیا، جس میں ایک 32 سالہ عبرانی اسرائیلی گلوکار بھی شامل تھا جو فن کا مظاہرہ کرتا رہا تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے کمیونٹی کے افراد کو مستقل رہائش دینا شروع کر دی۔
2015ء میں، ان میں سے تقریباً 130 افراد نے بغیر دستاویزات کے رہائشی حقوق حاصل کرنے کے لیے درخواستیں جمع کروائیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ حکام ان کی حیثیت کو قانونی بنانے کے سابقہ وعدوں سے منحرف ہوگئے تھے۔
وزارت داخلہ نے 2021ء میں درخواستیں مسترد کرتے ہوئے 49 افراد کی ملک بدری کے احکامات جاری کر دیئے تھے۔ چار افراد نے ملک چھوڑ دیا، جبکہ باقی 45 نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ باقی افراد قانون کے شکنجے میں ہیں۔
وزارت کی پاپولیشن اینڈ امیگریشن اتھارٹی نے کہا کہ ملک بدری کا نشانہ بننے والے افراد کبھی بھی عبرانی اسرائیلی رہنماؤں کی جمع کرائی گئی فہرستوں میں شامل نہیں تھے اور کچھ حال ہی میں اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔
اتھارٹی نے کہا کہ “یہ بات واضح نہیں ہے کہ (رہائش کے لیے) ان کی پہلی درخواستیں صرف 2015ء میں کیوں جمع کرائی گئی تھیں،” یا ان افراد کی جانب سے درخواستیں کمیونٹی نے کیوں نہیں جمع کروائیں۔
گذشتہ برسوں میں برادری، اسرائیلی معاشرے میں گہرائی میں ضم ہو چکی ہے جس سے ملک بدری کا خیال بالخصوص تکلیف دہ ہوگیا ہے۔ درجنوں عبرانی اسرائیلی نوجوان اسرائیل کی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں، اور بہت سے لوگ سبزیوں کے کھانے بنانے والی کمپنی، ٹیوا ڈیلی کے لیے کام کرتے ہیں۔
برادری ایک اسکول چلاتی ہے جہاں طلباء اپنی تعلیم کے حصے کے طور پر عبرانی اور سیاہ تاریخ سیکھتے ہیں۔ ولیج آف پیس کے رہائشیوں کی اکثریت، بالخصوص نوجوان نسل کے ارکان جنہوں نے اسرائیل میں پرورش پائی ہے، روانی سے عبرانی زبان بولتے ہیں۔
یکم جون کو، برادری نے نیو ورلڈ پاس اوور منایا، جو 1960ء کے عشرے میں اسرائیل آنے والے عبرانی اسرائیلیوں کے امریکہ سے اخراج کی علامت ہے۔
رنگارنگ لباس میں ملبوس خاندان لائیو میوزک اور ویگن سول فوڈ کک آؤٹ کے لیے ولیج آف پیس سے ملحقہ پبلک پارک میں جمع ہوئے۔
اس کے بعد، کمیونٹی کے افراد رقص، اور ایک مارچ کے لیے ایک اسٹیج کے ارد گرد جمع ہوئے جس میں اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے والے عبرانی اسرائیلی فوجیوں کا جشن منایا گیا اور “ہم اپنے خدا کے سپاہی ہیں” کے نعرے لگائے گئے۔
مہینوں ہو چلے ہیں کہ اسرائیلی حکام کسی فیصلے پر پہنچ ہی نہیں پائے ہیں، جس کی وجہ سے غیر دستاویزی عبرانی اسرائیلی مقدس سرزمین میں اپنے گھروں یا جلاوطنی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔
55 سالہ بین اسرائیل نے برمودا میں پرورش پائی اور 1991ء میں امریکہ سے اسرائیل منتقل ہو گئے۔ پانچ میں سے چار بچوں کے ساتھ ان کی اسرائیل سے جلاوطنی طے پا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ ہم اسرائیل کے خدا کی خدمت کرنے کے لیے آئے ہیں، جو ہمارے آباء و اجداد ابراہیم، اسحٰق، اور یعقوب کا خدا ہے۔ ہم عبرانی اسرائیلی ہیں تو کیوں نہ ہاتھ میں ہاتھ ہو؟