طویل عرصے بعد تختہ پلٹ انقلاب کا سامنا کرنے والے ملک شام میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بشار الاسد کی حکومت شام پر اپنا انتظام کھوتی چلی جا رہی ہے۔
شام کے تیسرے بڑے شہر حمص میں اپوزیشن کے مسلح گروپوں کے داخلے کے بعد یہ ادلب، حلب اور حماہ کے بعد اپوزیشن گروپوں کے ہاتھ میں آنے والا چوتھا صوبہ ہوگا۔
گذشتہ ماہ 27 نومبر کو شام کے منظر نامے میں اس وقت حیران کن پیش رفت سامنے آئی جب “ہیئت تحریر الشام” تنظیم اور اس کے اتحادی مسلح گروپوں نے ادلب سے نکل کر ملک کے شمال مغربی حصے میں شامی سرکاری فوج کے ٹھکانوں پر وسیع حملہ کر دیا۔
اس کے نتیجے میں شامی فوج اور اس کے ساتھ لڑائی میں شریک ایرانی ملیشیائیں حلب صوبے سے نکل گئیں اور اس پر مسلح گروپوں کا مکمل کنٹرول ہو گیا۔ چند روز بعد حماہ صوبے سے بھی شامی فوج کو مار بھگایا گیا۔ اس کے بعد اپوزیشن گروپوں نے حمص کا رخ کیا۔ چند گھنٹوں کے اندر صوبے کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا گیا۔
دوسری جانب سیرین ڈیموکریٹک فورسز (کرد مسلح تنظیم) نے شام کے مشرق میں واقع شہر دیر الزور پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ یہ پیش رفت سرکاری فوج اور اس کے ساتھ موجود تہران کے ہمنوا گروپوں کی قیادت کے شہر سے اچانک اور حیران کن انخلا کے بعد سامنے آئی۔
بنیادی طور پر الرقہ صوبہ کئی برسوں سے کرد فورسز کے ہاتھوں میں تھا جبکہ الحسکہ صوبے میں کرد فورسز کے علاوہ شامی سرکاری فورسز بھی موجود ہیں۔ وہ الحسکہ اور القامشلی کے شہروں میں تھوڑے سے رقبے پر تعینات ہیں۔
اس طرح بشار الاسد کی فورسز حمص کے علاوہ لاذقیہ اور طرطوس کے صوبوں میں کنٹرول رکھتی ہیں۔ دار الحکومت دمشق اور دمشق کا دیہی علاقہ بھی سرکاری فوج کے پاس ہے۔
جہاں تک ملک کے جنوب میں درعا کا تعلق ہے تو وہ مقامی مسلح گروپوں کے قبضے کے بعد مکمل طور پر شامی فوج کے کنٹرول سے نکل چکا ہے۔ ان گروپوں نے صوبے کے کئی دیہی علاقوں کے علاوہ نوی شہر اور کئی قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
ذرائع نے روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ مسلح گروپوں نے شہر میں کام کرنے والے سینئر سیکورٹی اور فوجی ذمے داران کو دمشق جانے کے لیے محفوظ راستہ پیش کیا۔
جنوب میں جمعے کے روز السویداء میں بھی شہر کے والی اور سیکورٹی قیادت نے سرکاری ادارے اور مراکز خالی کر دیے۔ شام میں انسانی حقوق کی رصد گاہ “المرصد” کے مطابق یہ پیش رفت مقامی مسلح گروپوں کی جانب سے دیہی علاقے میں سیکورٹی چک پوائنٹس پر قبضے کے بعد سامنے آئی۔
شام میں انسانی حقوق کی رصد گاہ المرصد کے مطابق لڑائی میں اب تک 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مسلح گروپوں کے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ شامی فوج کے 65 سے زیادہ فوجی اور افسران مارے گئے ہیں۔