گورنر بلیغ الرحمان کے انکار کے بعد ملک کی سب سے بڑی اسمبلی پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف اپنی فکر میں لگی ہوئی ہیں اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہفتے کے آخری کاروباری روزکے دوران جمعہ کو KSE-100 انڈیکس 366.73 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 40,437.16 پوائنٹس پر گر گیا۔ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے 4 بلین ڈالر کے وعدے کے باوجود، مارکیٹ مناسب جواب نہیں دے رہی ہے۔یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ معیشت کو کس وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ تاکہ اس کا جلد سے ازالہ کیا جاسکے۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد اگر اسمبلی آئینی مدت پوری ہونے پر تحلیل ہوتی ہے تو 60 روز میں انتخابات ہوں گے،جب کہ قبل از وقت تحلیل ہونے کی صورت میں 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وزیراعلیٰ نگراں حکومت کے لیے قائد حزب اختلاف کو خط لکھیں گے جس میں دونوں جانب سے نگراں وزیراعلیٰ کے لیے دو ناموں کی سفارش الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیجی جائے گی۔
دونوں فریق تین دن میں وزیراعلیٰ کی تقرری پر اتفاق رائے پر پہنچنے میں ناکام رہے تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا۔پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھی 3 دن کی ڈیڈ لائن ہوگی اور اگر فریقین پارلیمانی کمیٹی میں مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہے تو معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کو بھیج دیا جائے گا۔چیف الیکشن کمشنر 2 روز میں حکومت کو مشورہ دیں گے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان جمعرات کو ایک دن میں دو سرپرائزز دینے کے بعد ہیٹ ٹرک پر ہیں – پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لیے اعتماد کا ووٹ اور اس کے بعد اسمبلی کی تحلیل جبکہ تیسرا معاملہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کا ہے، ملک کے سیاستدان ثابت کر رہے ہیں کہ ان کے لیے پاکستان کی معاشی بحالی سے زیادہ سیاسی ترجیح اہم ہے۔