پاکستان کی سیاسی فضا کشیدگی کے بادلوں سے کچھ ایسے ڈھک چکی ہے کہ ہزاروں خواہشوں اور تمناؤں کے باوجود فضاؤں میں موجود گھٹن کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
عوام و خواص سب کی یہی آرزو ہے کہ حالات میں خرابی پیدا کرنے والا مسائل کا یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے لیکن شومئی قسمت کہ حالات کسی بھی طرح بہتری کی طرف جاتے نظر نہیں آتے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اپنے مؤقف پر بضد ہیں کہ اگر 14 مئی کو الیکشن نہ ہوا تو آئین ٹوٹ جائیگا اور طاقتور قوتوں کو فائدہ ہوگا اور سونے پر سہاگہ کہ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان ہوں یا فواد چوہدری، دونوں اطراف سے معاملات کو سلجھانے کیلئے جھکاؤ کا عنصر کہیں نظر نہیں آرہا۔ وزیردفاع بھی پیشگی شرائط، آئین ٹوٹنے اور فوری الیکشن کے مطالبات پر نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
ایک طرف پوری سیاسی قیادت آئین کی دہائیاں دیتی ہے تو دوسری طرف آئین پر عمل کرنے کو بھی تیار نہیں اور اس وقت دگرگوں حالات میں 12 تو کیا 42 ارب روپے لے کر بھی 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کمیشن کیلئے انتخابات ناممکن سے کم نہیں۔
بیلٹ پیپرز اور ووٹرز لسٹوں کی چھپائی بمع تصاویر، عملے کی تربیت، تعیناتیاں اور دیگر معاملات دو ہفتے کی قلیل مدت میں ہونا ممکن نہیں جس کی وجہ سے صورتحال مزید مخدوش ہوتی جارہی ہے ۔ آئین میں 90 دن میں الیکشن کی پابندی یا سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنا اس وقت شائد مشکل ہو۔
اب اگر مذاکرات کی میز پر نظر ڈالیں تو اس پر بیٹھنے والے تمام لیڈران اپنی اپنی جماعتوں کے سرکردہ رہنما ہیں تاہم مشکل یہ ہے کہ پی ٹی آئی پورے ملک میں ایک ہی دن الیکشن کیلئے قومی اسمبلی کی تحلیل پر مصر ہے لیکن پی ڈی ایم یہ بات سننے کو تیار نہیں ہے۔
اس وقت ملک میں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں اس تناظر میں اگر اکتوبر میں بھی انتخابات ہوجاتے ہیں تو بڑی بات ہوگی کیونکہ آگے بڑھنے والے پیچیدہ معاملات مزید الجھتے جائینگے۔
یہاں حکومت اور پی ٹی آئی کی سنجیدگی کو اپنے ذہنوں کی اختراع سے جوڑنا قطعی نامناسب ہےلیکن بدقسمتی سے ہمارے لیڈران میں من حیث القوم سنجیدگی کا عنصر بہت کم پایا جاتا ہے اور ان تمام حالات کے پیش نظر معاملات آگے چل کر مزید بگڑنے اور الجھنے کا قوی امکان ہے
بقول شاعر
بلبل کی انتڑیوں میں رگ گل کی پھانس ہے
مصرع تو کچھ نہیں ہے، فقط ٹھونس ٹھانس ہے
حکومتی اتحاد کے مفادات ایک دوسرے سے منسلک ہیں اس لئے حکومتی اتحاد میں تقسیم کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں ، یہ حقیقت ہے کہ عمران خان ماضی میں مولانا فضل الرحمان کیلئے نامناسب الفاظ کا استعمال کرتے رہے ہیں لیکن پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتیں اس اتحاد کو جوڑ کر رکھنے کو اپنے تحفظ کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمان اتحاد کی سربراہی سے خود کو الگ کرلیتے ہیں یا ایم کیوایم، بی این پی اور دیگر چھوٹی اتحاد سے الگ ہوجائیں تو یہ اتحاد چکنا چور ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے ہر ذی شعور کی خواہش ہے کہ معاملات بہتر ہوں، ماضی میں اٹلی، جاپان، بھارت اور کئی ممالک میں حالات دگرگوں رہے لیکن جب بات معیشت کی ہو تو کوئی بھی ملک معاشی معاملات پر سمجھوتا نہیں کرتا۔
پاکستان اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، غیر ملکی قرضہ 131ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور اس سے زیادہ قرضوں کا انبار ہے۔ آئی ایم ایف تلوار لے کر ہمارے سروں پر کھڑا ہے، لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں، کروڑوں لوگوں کو کھانے کو خوراک میسر نہیں اور ایسے میں ہر محب وطن پاکستانی کی یہی خواہش ہے کہ سیاسی طوفان تھمے تاکہ معاشی استحکام کا راستہ صاف ہو۔
قسمت کی خرابی کہ ہمارے ملک میں غریب عوام کی حالات زار کبھی بھی حکمرانوں کیلئے اوّلین ترجیح نہیں رہی ورنہ آج حالات اس نہج پر نہ پہنچتے۔ابھی بھی اگر مذاکرات میں کچھ بہتری ہوجائے تو معیشت کو مزید مخدوشیت سے بچایا جاسکتا ہے۔
عالمی معاشی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پیشگوئی کردی ہے کہ 2026ء تک پاکستان کے معاشی حالات یونہی دگرگوں رہیں گے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر کتنے لوگ ان حالات سے نبردآزما ہونے کی طاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں خاص طور پر وہ طبقہ جنہیں پہلے ہی کھانے کو میسر نہیں۔
جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب پی ٹی آئی رہنماء پرویز الٰہی کے گھر پر چھاپے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ شائد حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان معاملات خوشگوار نہیں ہیں اور کٹھن حالات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شائد سیاسی قیادت کیلئے کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہوگا۔ آگے تذبذب بڑھے گا، بہتری کی جانب جانےوالے تمام راستے بند ہوجائینگے اور اگر ایسا ہوا توپھر یاد رکھیں کہ سیاستدانوں کے ہاتھ سے ڈور چھوٹ جائیگی جس کو کوئی اور ہی آکر سنبھالے گا۔