نواز شریف پاکستان واپسی پر گرفتاری سے بچنے کیلئے کون سے قانونی طریقے اپنا سکتے ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان پہنچیں گے تاہم ان کے پاکستان واپسی پر کیے جانے والے استقبال سے زیادہ اہم چیزان کو درپیش قانونی چیلنجز ہیں۔

پاکستان پہنچنے سے پہلے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ جب نواز شریف پاکستان پہنچیں گے تو کیا وہ لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے جو ان کے استقبال کے لیے اکیس اکتوبر کو لاہور پہنچیں گے، مینار پاکستان جائیں گے یا پھر انھیں دوبارہ کوٹ لکھپت جیل جانا پڑے گا؟

نواز شریف جب سنہ 2019 میں علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے تو اس وقت وہ سزا یافتہ تھے اور اسلام آباد کی احتساب عدالت کی طرف سے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں بطور قیدی سات سال کی سزا کاٹ رہے تھے۔

مسلسل عدم پیشی کی بنا پر اب عدالت انھیں اشتہاری بھی قرار دے چکی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے وکلا نے اس ضمن میں اپنی تیاری مکمل کر لی ہے اور وہ اس سلسلے میں اسلام آباد، لاہور اور سندھ ہائی کورٹ میں نوازشریف کی حفاظتی ضمانت کے لیے درخواست دائر کریں گے۔

آئیے جانتے ہیں کہ نواز شریف کو اس وقت کون سے قانونی چیلنجز درپیش ہیں اور اس حوالے سے ان کے پاس کیا آپشن ہیں۔

نواز شریف کو وطن واپسی پر حفاظتی ضمانت ملے گی؟

قانونی ماہر بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ عدالتیں آج کل بڑی ’لبرل‘ ہیں اور وہ ایسا کوئی شخص جو کسی مقدمے میں مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ اشتہاری بھی ہو تو اس کو حفاظتی ضمانت دے دیتی ہیں تاکہ وہ متعقلہ عدالت میں پیش ہو کر اپنے مقدمے کے ’سٹیٹس‘ کو بحال کروا سکے اور اس کے بعد وہ اپنی قانونی جنگ لڑے۔

انھوں نے کہا کہ ’عدالتی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے جہاں پر ملزم یا مجرم کی عدم موجودگی میں عدالتیں انھیں حفاظتی ضمانتیں دے دیتی ہیں اور حفاظتی ضمانتیں دو دن سے لے کر دو ہفتوں تک بھی ہو سکتی ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو متعقلہ عدالت میں پیش ہو کر اپنی سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں کے مسترد کیے جانے کے عدالتی فیصلوں کے خلاف درخواستیں دائر کرنا ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ اشتہاری قرار دے کر وارنٹ جاری کرنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ملزم یا مجرم کو پکڑ کر قانون کے سامنے سرینڈر کرایا جائے۔ اگر اگر کوئی اشتہاری خود سرینڈر کرنا چاہتا ہے تو عدالت اس کو یہ موقع فراہم کرتی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ’ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ مقدمے کے دو شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بری کر چکی ہے اور اس عدالتی فیصلے کا فائدہ نواز شریف کو اس مقدمے میں دی جانے والی سزا اور بریت سے متعلق درخواست دائر ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔‘

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست منطور کر رکھی تھی اور العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں صحت کی بنیاد پر ان کی سزا کو معطل کر کے ان کی آٹھ ہفتوں کے لیے ضمانت منظور کرلی تھی۔

سابق وزیر اعظم کی صحت کے معاملات کے پیش نظر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 الگ الگ درخواستیں دائر کر دی تھیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت ہوئی تھی اور اس کیس میں عدالت نے ایک کروڑ روپے کے دو مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کردی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کو معطل کیا تھا، اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عامر فاروق بھی شامل تھے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں سابق وزیر اعظم کے علاج کے حوالے سے واضح کیا تھا کہ اگر ضمانت میں توسیع کی ضرورت پڑی تو صوبائی حکومت سے دوبارہ درخواست کی جاسکتی ہے اور حکومت اس پر فیصلہ کر سکتی تاہم نواز شریف عدالت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔

نواز شریف نے بیرون ملک روانگی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے بجائے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر انھیں چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک روانہ ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ شہباز شریف نے بھی اپنے بھائی کی صحت یابی پر وطن واپس آنے کی انڈرٹیکنگ عدالت میں جمع کروائی تھی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف علاج کی غرض سے نومبر سنہ 2019 میں لندن گئے تھے اور اس دوران مسلم لیگ ن کی قیادت نے سابق وزیر اعظم کے بیرون ملک قیام میں توسیع کے حوالے سے پنجاب حکومت کو درخواست دی تھی جو مسترد کر دی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے دسمبر 2020 میں عدم پیروی کی بنا پر نواز شریف کی ایون فیلڈ میں ضمانت اور العزیزیہ سٹیل ملز میں سزا کی معطلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں اشتہاری قرار دیا تھا۔

کیا نواز شریف سزاؤں کے خلاف دوبارہ اپیلیں دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں؟

بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ حفاظتی ضمانت کے دوران نواز شریف ان عدالتی فیصلوں کی معطلی کے لیے درخواستیں دائر کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر عدالت حفاظتی ضمانت کی مدت کے دوران ان کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں کرتی تو پھر سابق وزیر اعظم کو اس وقت تک جیل جانا پڑے گا جب تک ان کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں آ جاتا۔

تاہم کچھ قانونی ماہرین اس سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اشتہاری ہونے کے باعث نواز شریف کو جیل جائے بغیر کوئی ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ جب کوئی بھی ملزم عدالت کے سامنے سرینڈر کرے تو عدالت اسے قانون کا سامنا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور عدم موجودگی میں عدالتیں ایسے ملزم یا مجرم کو ریلیف فراہم نہیں کرتیں۔

اب عدالت اس وقت تک کوئی درخواست نہیں سن سکتی جب تک اشتہاری مجرم عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کر دے

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی سزا معطل کر کے ضمانت دی گئی تھی جو ختم ہو گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اشتہاری ہونے پر سزا بحال ہو چکی ہے اور اب عدالت اس وقت تک کوئی درخواست نہیں سن سکتی جب تک اشتہاری مجرم عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کر دے۔

نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو جیل جانے کے بعد ضمانت کے لیے رجوع کرنا پڑے گا اور تب ہی عدالت انھیں کوئی ریلیف دے سکتی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی غیر موجودگی میں اپیلیں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کے بجائے انھیں نان پراسیکیوشن یعنی عدم پیروی پر خارج کیا اور اس سے قبل نواز شریف کو عدالتی مفرور اور اشتہاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپیلیں میرٹ پر دلائل سن کر نہیں بلکہ ٹیکنیکل گراؤنڈ یعنی عدم پیروی پر خارج کی جا رہی ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق اس عدالتی فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ اپیل کنندہ جب واپس آئے تو وہ سزا کے خلاف اپیلیں دوبارہ دائر کرنے کا حق رکھتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حالات سنہ 2018 سے مختلف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سنہ 2018 میں جو بھی سازشی کردار تھے وہ تمام بے نقاب ہو چکے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے علاوہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کردار بھی بے نقاب ہو چکے ہیں اور ان کرداروں کی سازش کا بنیادی مقصد نواز شریف کو سیاست سے الگ رکھنا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں عدالتوں سے معاملات طے کیے جاتے تھے لیکن اب ایسی صورت حال نہیں ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف پاکستان واپس آکر عدالتوں میں اپنے مقدمات کا سامنا کریں گے۔‘

انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ عدالتیں نواز شریف کو انصاف فراہم کریں گی اور وہ ان سازشی عناصر کے کردار کو بھی سامنے رکھیں گی جنھوں نے سابق وزیر اعظم کو پانامہ لیکس کے تحت بننے والے مقدمات میں سزا دلوائی۔

انھوں نے کہا کہ جماعت کی لیگل ٹیم تمام قانونی معاملات کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔

کیا نواز شریف کی تاحیات نااہلی برقرار رہے گی؟

بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا معاملہ پانامہ لیکس میں سپریم کورٹ کی طرف سے آیا تھا تاہم سابق حکمراں جماعت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے سابق پارلیمنٹ سے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کر کے تاحیات نااہلی کی مدت پانچ سال کر دی تھی۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں اس ترمیم کو ابھی تک کسی نے بھی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا، جس کا مطلب ہے کہ یہ قانون ابھی تک برقرار ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر اسلام آباد ہائی کورٹ ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمات میں سابق وزیراعظم کو دی جانے والی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیتی ہے تو پھر نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس میں اپنے بیٹے کی کمپنی میں کام کر کے وہاں سے تنخواہ کے معاملے کو اپنے انتخابی گوشواروں کو ظاہر نہ کرنے پر انھیں تاحیات نا اہل قرار دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا فیصلہ ابھی تک برقرار ہے اور اس فیصلے کی موجودگی میں ان سزاؤں کے کالعدم ہونے کے باوجود نواز شریف انتخابی عمل میں اس وقت تک حصہ نہیں لے سکتے جب تک سپریم کورٹ لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف کوئی درحواست دائر ہونے کی صورت میں کوئی حکم صادر نہیں کرتی۔

انھوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ سپروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس میں بھی واضح ہے کہ ماضی میں از خود نوٹس پر جو بھی فیصلے آئے ہیں ان کے خلاف نطرثانی کی اپلیں دائر نہیں ہو سکتیں اور نواز شریف کی نااہلی بھی اس زمرے میں آتی ہے۔

سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کے سر پر جو تاحیات نااہلی کی تلوار لٹک رہی تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ پارلیمنٹ نے الیکنشن ایکٹ میں ترمیم کرکے تاحیات نااہلی کی سزا کو پانچ سال کے لیے کر دیا ہے اور اس طرح نواز شریف کی نااہلی کی مدت ختم ہو چکی ہے اور وہ آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت کریں گے۔‘

احسن اقبال کو یہ امید ہے کہ آئندہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے ’نواز شریف کے خلاف وہ مقدمات جس میں انھیں سزائیں سنائی گئی تھیں وہ ختم ہو جائیں گی۔‘

Related Posts