توشہ خانہ ریفرنس کیس ہے کیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں 14، 14 سال قید کی سزا دی گئی ہے، آئیے جانتے ہیں یہ کیس ہے کیا؟

5 اگست 2022ء کو ڈی جی نیب نے توشہ خانہ ریفرنس پر تحقیقات شروع کیں۔

14 جولائی 2023ء کو توشہ خانہ کی تحقیقات تفتیش میں تبدیل ہوئیں۔

توشہ خانہ ریفرنس کیس

ریفرنس کے مطابق بطور وزیرِ اعظم بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے غیر ملکی سربراہان سے 108 تحائف حاصل کیے، 108 میں سے بانیٔ پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی نے 14 کروڑ روپے مالیت کے 58 تحائف اپنے پاس رکھے۔

بانیٔ پی ٹی آئی نے سعودی ولی عہد سے موصول جیولری سیٹ انتہائی کم رقم کے عوض اپنے پاس رکھا، توشہ خانہ قوانین کے مطابق تمام تحائف توشہ خانہ میں رپورٹ کرنا لازم ہیں۔

دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ بشریٰ بی بی کا سعودی ولی عہد سے جیولری سیٹ تحفے میں ملا، یہ جیولری سیٹ ملٹری سیکریٹری کے ذریعے توشہ خانہ میں رپورٹ تو ہوا لیکن جمع نہیں کروایا گیا۔

بشریٰ بی بی اور بانیٔ پی ٹی آئی نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف وزری کی، دونوں نے اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوئے جیولری سیٹ کی من پسند قیمت لگوائی۔

بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے جیولری سیٹ 90 لاکھ روپے کی رقم کی ادائیگی کے عوض وصول کیا۔

نیب نے بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف گراف جیولری سیٹ کا ریفرنس فائل کیا تھا، جیولری سیٹ میں نیکلس، ایئر رنگس، بریسلٹ اور ایک انگوٹھی شامل تھی۔

توشہ خانہ کیا ہے؟

توشہ خانہ یا سٹیٹ ریپازیٹری دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔

کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔

یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔

قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔

جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔

توشہ خانہ کی تفصیلات کیوں طلب کی گئیں؟

یہ تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب 2018 میں برسراقتدار آنے والے عمران خان نے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) قانون کے تحت ایک صحافی کے مطالبے پر بیرونی دوروں پر ملنے والے بہت سے تحائف کی تفصیلات ظاہر کرنے کی مخالفت کی۔

اس درخواست کو پی ٹی آئی کے زیر کنٹرول مرکزی حکومت نے ان خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ایسا کرنے سے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے۔

کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے عمران خان کے تحائف کی تفصیلات بتانے سے انکار پر صحافی نے وفاقی انفارمیشن کمیشن سے شکایت کی۔ کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو آر ٹی آئی کے مطابق معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کر دی تاہم عمران خان کی زیرقیادت حکومت اس ہدایت کی تعمیل کرنے میں ناکام رہی، جس پر درخواست گزار نے وفاقی انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

اپریل 2022 میں، IHC نے حکومت کو معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا، لیکن اس سے پہلے کہ اس پر کارروائی ہو، پاکستان مسلم لیگ نواز نے عمران خان انتظامیہ سے اقتدار سنبھال لیا۔

عمران خان نے توشہ خانہ سے کیا کچھ لیا؟

عمران خان نے بطور وزیر اعظم اپنے دور حکومت میں مبینہ طور پر 3.8 ملین پاکستانی روپے مالیت کی گراف گھڑی سمیت پانچ مہنگی کلائی گھڑیاں تحفے میں حاصل کیں۔ خان نے ان تحائف کو اکتوبر 2018 میں ایک چوتھائی ملین کی ادائیگی کے بعد اپنے پاس رکھا۔

ستمبر 2018 میں خان نے  85 روپے ملین مالیت کی مختلف گراف کلائی گھڑیاں، 5.6 ملین مالیت کا کفلنک کا ایک جوڑا، 1.5 ملین روپے مالیت کا قلم اور 8.75 ملین روپے مالیت کی انگوٹھی کو اپنے پاس رکھنے کے لیے صرف 20 ملین ادا کیے۔

1.5 ملین روپے مالیت کا رولیکس بھی خان نے  روپے 294,000 میں اپنے پاس رکھی۔

نومبر 2018 میں انہوں نے 900000 روپے مالیت کی ایک اور رولیکس اپنے پاس رکھی اور اس سمیت کچھ دیگر اشیاء کے لیے  338600 روپے ادا کیے۔

ایک سال بعد اکتوبر 2019 میں خان نے ایک باکس والی گھڑی اپنے پاس رکھی، جس کی قیمت 935,000 روپے تھی۔ ستمبر 2020 میں ایک اور رولیکس، جس کی قیمت کا تخمینہ 4.4 ملین تھا، 2.4 ملین میں اپنے پاس رکھی ، اس رقم میں دیگر تحائف بھی شامل تھے۔

Related Posts