چیف جسٹس کیخلاف مذہبی طبقے میں شدید غم و غصہ، وجہ کیا ہے؟

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ایک حالیہ فیصلے نے ملک کے مذہبی طبقے کو شدید غم و غصے میں مبتلا کر دیا ہے۔
توہین قرآن کے ایک کیس میں عدالت عظمیٰ کے 19 فروری کے فیصلے کے بعد مذہبی طبقے کی طرف سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور فاضل چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا سمیت مختلف فورمز پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں مختلف مذہبی طبقات کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں اور مشترکہ لائحہ طے کرنے کیلئے کل جماعتی بیٹھکوں کی پلاننگ بھی کی جا رہی ہے۔ 
الزام لگایا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین پاکستان کے ساتھ غداری کرتے ہوئے قرآن پاک کی تحریف کرنے والے توہین قرآن کے ملزم قادیانی کو نہ صرف رہا کر دیا بلکہ قادیانیوں کو اپنے مذہب کی اشاعت کی بھی مکمل آزادی دے دی جبکہ آئین پاکستان میں قادیانیت کی تشہیر پر پابندی ہے۔ اس کے ساتھ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کو فی الفور عہدے سے ہٹایا جائے۔
معاملہ اس قدر سنگین صورت اختیار کیا جا رہا ہے کہ اس مہم میں اچھے خاصے سوشل انفلوئنس رکھنے والے مذہبی اسکالر بھی شامل ہو رہے ہیں۔ معروف اسکالر مفتی ابو محمد نے بھی اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
فیس بک پر اپنے ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے جس انداز میں قرآن کریم کی تشریح کی ہے اور تاثر دیا ہے کہ وہ علماء سے زیادہ قرآن کریم کو سمجھتے ہیں، یہ افسوسناک ہے۔
آخر یہ مسئلہ ہے کیا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کیس میں ایسا کیا ہوا ہے جس کی بنا پر چیف جسٹس کیخلاف مذہبی بنیادوں پر مہم شروع کر دی گئی ہے؟ دراصل یہ معاملہ توہین قرآن کے ایک کیس کے فیصلے سے اٹھا ہے۔
مبارک احمد ثانی نامی ایک ملزم کے خلاف ضلع چنیوٹ کے مقامی تھانے میں مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ  295 بی، 298 سی اور پنجاب اشاعت قرآن ایکٹ کی دفعہ 7 اور 9 کے تحت 6 دسمبر 2022 کو اس بنا پر ایف آئی آر درج کرائی گئی کہ ملزم قادیانی مذہب کی تفسیر ” تفسیر صغیر” کی تقسیم میں ملوث ہے۔
اس مقدمے کے تحت ملزم پر یہ 3 الزامات عائد کیے گئے کہ 1) ملزم پنجاب قرآن ( پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 کی دفعہ سات اور نو کے تحت تفسیر صغیر کی تقسیم میں ملوث ہے۔ 2) ملزم مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 بی کے تحت توہین قرآن کا مرتکب ہے اور (3) ملزم جموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی کے تحت قادیانی ہونے کے باوجود خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے۔
ان الزامات کے تحت 6 دسمبر 2022 کو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کو 7 جنوری 2023 کو گرفتار کر دیا گیا، جس کے بعد 10 جون اور 27 نومبر کو ایڈیشنل سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ سے ملزم کی ضمانت خارج کردی گئی۔
بعد ازاں یہ کیس سپریم کورٹ پہنچا جہاں یہ کیس چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ کے سامنے مقرر ہوا۔ طویل سماعت کے بعد عدالت نے آئین کی مختلف دفعات اور قرآن کریم کے حوالے دے کر مقدمہ خارج کردیا اور قرار دیا کہ ملزم پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ ثابت نہیں ہوتے اور ملزم کو 5 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا۔
اس سلسلے میں ذوالقرنین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو لے کر کچھ لوگ سپریم کورٹ پر قادیانیت کو فروغ دینے کا الزام لگا رہے ہیں لیکن یا تو انھوں نے یہ فیصلہ نہیں پڑھا اور یا وہ جان بوجھ کر غلط الزام لگا رہے ہیں، کیونکہ اس فیصلے میں بظاہر ایسا کچھ نہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ اس کیس سے قادیانی مذہب کو فروغ دیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور وکیل کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے، جس میں وہ تفصیل سے اس کیس کا جائزہ لیکر بتاتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قانونی سطح پر بالکل درست ہے، تنقید کرنے والوں نے فیصلے کو غلط سمجھا ہے۔
مذہبی طبقے کا اشتعال
تاہم اس کیس کو لیکر مذہبی طبقے میں بڑا ابہام پایا جاتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ایک قادیانی پبلشر کو باوجود آئین پاکستان کی پابندی کے، قرآن کریم کی اشاعت کی اجازت دے دی ہے۔

Related Posts