اسرائیل فلسطینی مزاحمت کو میدان میں تو شکست نہیں دے سکا، لیکن اب اس نے فلسطینی “عوام” کو ان کے خلاف بھڑکانے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔
ایک بین الاقوامی تحقیقاتی رپورٹ Evening Star نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا ہے، جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب ممالک کے شہری اور فلسطینی تنظیم الفتح کے ارکان بھی شریک ہیں۔
منصوبے کا پس منظر:
یہ منصوبہ اسرائیل کی جانب سے 16 ماہ کی فوجی کارروائیوں میں حماس کو زیر کرنے میں ناکامی کے بعد بنایا گیا۔ جس کے بعد اسرائیل نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے ایک نیا متبادل منصوبہ اپنایا ہے، جس میں حماس کے خلاف داخلی مخالفت کو بڑھانے کے لیے نفسیاتی جنگ، سوشل میڈیا مہمات اور بیرون ملک فلسطینیوں کو متحرک کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔
منصوبے کی تفصیلات:
مطلع ذرائع کے مطابق، اسرائیلی فوج نے ایک خاص خفیہ یونٹ تشکیل دیا ہے جس کا مقصد غزہ میں حماس کے خلاف مظاہرے اور سول بغاوت کو فروغ دینا ہے۔ اس کے علاوہ، اس منصوبے میں مصر اور دیگر ممالک کی طرف “رضاکارانہ نقل مکانی” کی سہولت فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
اس یونٹ کی قیادت:
اس خفیہ یونٹ کی قیادت اسرائیل کے عرب فوجی ترجمان آفیخائی ادرعی، امجد طہ جو کہ متحدہ عرب امارات کا ایک احوازی سرگرم کارکن ہے، لؤی شریف جو ایک اماراتی ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والا فرد ہے اور سعودی صحافی عبد العزیز خمیس کر رہے ہیں۔ عبد العزیز خمیس کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
بشار الاسد کا مفتی اعظم فرار کی کوشش میں نئی شامی انتظامیہ کے ہاتھوں گرفتار
فلسطینی کارکنوں کا کردار:
رپورٹ کے مطابق، اس خفیہ یونٹ میں شامل فلسطینی کارکنوں میں رمزی حرز اللہ (بلجیم)، حمزہ مصری (بلجیم-ترکی) اور امجد شامل ہیں جن کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
اس منصوبے کا مقصد فلسطینی عوام میں تقسیم اور حماس کی مقبولیت کو کمزور کرنا ہے، تاکہ زمینی حملوں کی صورت میں اسرائیل کو مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے، بلکہ فلسطینی عوام ہی حماس کے سامنے کھڑے ہوں۔ یہ طریقہ اسرائیل کی نیا حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے جو وہ مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے اپنائے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف مظاہروں کا آغاز دو روز قبل بیت لاہیا سے ہوا۔ جہاں چند درجن افراد جمع ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر جنگ مخالف نعرے درج تھے۔ پھر اسرائیلی میڈیا کی طرف سے ان “مظاہروں” کی تصاویر وائرل کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرے میں شامل وہی لوگ تھے، جن تک حالیہ جنگ بندی کے دوران اسرائیلی ایجنٹوں کی رسائی ہوئی ہے اور امداد کی آڑ میں انہیں بھاری رشوتیں دی گئی ہیں۔ اسرائیل نے جنگ بندی کے دوران دو کام کئے ہیں۔ ایک جاسوسی نیٹ ورک پھیلایا ہے۔ دوسرا اندر ایجنٹوں کی کھیپ بنالی ہے۔ یہ مظاہرے وہی کر رہے ہیں۔
ان کے نعروں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے: “ہمارے بچوں کا خون سستا نہیں ہے۔” یہ کس کو کہا جا رہا ہے؟ یہ مطالبات تو اقوام متحدہ اور انسانی حقوقِ کے علمبردار امریکہ سے جنگ بندی میں کردار ادا کرنے کے لئے ہونے چاہیے تھے۔
اسرائیل جو نسل کشی کا مجرم ہے، اس سے ہونے چاہیے تھے، مگر یہ لوگ الٹا مزاحمت سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب منظرعام پر آنے والی ویڈیو کے بارے میں بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پلانٹڈ مظاہرے دوران محاصرہ خالی علاقوں میں کروائے گئے تھے۔ اس میں شامل افراد غزہ کے باسی نہیں، بلکہ یہ مغربی کنارے سے اسی مقصد کے لیے لائے گئے تھے۔ دراصل یہ الفتح کے منافقین اور اسرائیلی ایجنٹ ہیں۔ اس کا مقصد دنیا کو باور کرانا ہے کہ حماس کی مزاحمت سے غزہ کے عوام تنگ آچکے ہیں۔
اس لیے وہ اس سے غیر مسلح ہونے یا غزہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن غزہ سے اگر حماس نکل بھی جائے تو کیا اہل غزہ پر اسرائیل بموں کے بجائے پھول برسائے گا؟ 1948ء میں حماس کہاں تھی؟ جب ہاگانا ملیشیا نے ایک ملین عربوں کو بے دخل کرکے سات سو بستیوں پر قبضہ کرلیا تھا؟ کیا مغربی کنارے میں حماس ہے؟ جہاں کی ساٹھ فیصد اراضی اسرائیل کے قبضے میں ہے اور گزشتہ روز وہ مزید 13 یہودی کالونیوں کی تعمیر کی منظوری دے چکا ہے؟ اب تو وہ مغربی کنارے کو مکمل طور پر فلسطینیوں سے خالی کرنے کے مشن پر ہے۔
اگر آپ کو دن میں زیادہ نیند آتی ہے تو جان لیں آپ اس سنگین بیماری میں مبتلا ہیں