دنیا بھر میں آج عالمی یومِ تعلیم کے موقعے پر تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو جاری ہے۔ مذاکرے، مباحثے اور سیمینار منعقد ہو رہے ہیں اور تعلیم کی صورتحال پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ تعلیم کی اہمیت کیا ہے؟ کیا پاکستان کا نظامِ تعلیم ہماری تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہا ہے؟ اگر ملک میں تعلیم کی صورتحال تسلی بخش نہیں تو اسے بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
تعلیم کی اہمیت
تعلیم دراصل علم حاصل کرنے والے یعنی طالب علم اور تعلیم فراہم کرنے والے یعنی استاد کے درمیان باہمی رشتے کا نام ہے۔ استاد جو سمجھاتا ہے وہ علم ہے اور طالب علم جس سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے، اسے تعلیم کہتے ہیں۔
سیکھنے کے عمل یعنی تعلیم کی اہمیت یہ ہے کہ آپ اس عمل سے گزر کر ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ آج کے دور میں تعلیم کو کاروبار یا ملازمت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے، جبکہ تعلیم کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
مختصر الفاظ میں کہا جائے تو تعلیم انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتی ہے جس کے ذریعے زندگی بھر پیش آنے والے ہر مسئلے کا حل آپ خود بھی نکال سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی سمجھا سکتے ہیں۔
پاکستان کا تہرا نظامِ تعلیم
پاکستان کا نظامِ تعلیم کے نظامِ تعلیم کو چوں چوں کا مربہ کہا جائے تو یہ مضحکہ خیز تشبیہ افسوسناک صورتحال کے پیش نظر حقیقت پر مبنی بھی نظر آئے گی کیونکہ ملک میں تعلیم کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
ہم نے پاکستانی نظامِ تعلیم کو جو مضحکہ خیز تشبیہ دی ہے یہ اس وجہ سے دی گئی کہ ملک میں سرکاری نظام، نجی تعلیمی ادارے اور مدرسہ سسٹم کے تحت تین متوازی نظام ہائے تعلیم دستیاب ہیں جو تعلیم کو مشکل بنا دیتے ہیں۔
اگر آپ مولانا یا مفتی بننا چاہتے ہیں تو مدرسوں اور مساجد میں تعلیم حاصل کریں۔ قرآن پاک حفظ کریں، قرات و تجوید سیکھیں اور درسِ نظامی سے فیضیاب ہوں۔ آپ عالمِ دین بن جائیں گے لیکن پریشان رہیں گے۔
دوسری صورت میں اگر آپ غریب ہیں اور نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کے متحمل نہیں ہوسکتے تو سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ یہاں تعلیم حاصل کرکے آپ مقدر سے ہی کچھ بن سکتے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آپ کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے لیے تیار نہیں کیا جاتا۔ نامناسب تعلیمی ماحول، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ اسکولوں کی بھرمار نے بھی عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔
تیسری صورت میں اگر آپ نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تو ان کی فیسیں متوسط طبقے کی جیب پر ہمیشہ بھاری پڑتی ہیں۔ نجی اداروں میں تعلیم صرف امیر لوگوں کا مقدر ہے جو یہاں سے پڑھ لکھ کر کچھ بن سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ سب کے سب نجی تعلیمی ادارے مثالی و معیاری تعلیم فراہم نہیں کرتے۔ پاکستان میں بے شمار اسکول ایک کمرے اور بے شمار یونیورسٹیاں ایک عمارت پر مشتمل ہوتی ہیں جسے معیاری قرار نہیں دیاجاسکتا۔
تعلیم کے افسوسناک اعدادوشمار
ماہرِ تعلیم اور کالم نگار پروفیسر ہارون رشید کے مطابق اس وقت پاکستان میں 4 کروڑ بچے زیر تعلیم ہیں ۔ 2 کروڑ بچے ایسے ہیں جنہوں نے اسکول دیکھا بھی نہیں جبکہ ڈھائی سے 3 لاکھ بچے چائلد لیبر کا شکار ہیں۔
پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ ملک میں مدارس کی تعداد 32 ہزار 272 ہے جن میں 22 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ یونیورسٹیوں کی صورتحال پریشان کن ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں 42 نجی یونیورسٹیاں موجود ہیں جہاں ڈگری جاری کرنے کا نظام بدعنوانی کا شکار ہے۔ پیسہ لے کر ڈگریاں جاری کرنے والے اداروں کو یونیورسٹی کیسے کہا جائے؟
ترقی یافتہ ممالک میں شرحِ خواندگی عموماً 95 سے 100 فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔ پاکستان میں جو لوگ واجبی تعلیم رکھتے ہیں اور صرف اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں، انہیں خواندہ سمجھ لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایسے لوگ 70 فیصد ہیں جو اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے لے کر میٹرک فیل تک سب لوگ اس 70 فیصد خواندہ آبادی کا یکساں حصہ ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے آج سے 7 سال قبل جو اعدادوشمار جاری کیے، ان کے مطابق پاکستان تعلیم کے معاملے میں 180ویں نمبر پر تھا جبکہ اس فہرست میں 221 ممالک شامل تھے۔
تعلیمی اداروں کی صورتحال
سن 16-2015ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں پرائمری تعلیم دینے والے ادارے 1 لاکھ 45 ہزار 829 ہیں جن میں سے سرکاری ادارے 1 لاکھ 25 ہزار 573 ہیں۔
مڈل سطح کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد 45 ہزار 680 ہے جن میں سے سرکاری اداروں کی تعداد 16 ہزار 862 ہے جبکہ 28 ہزار 818 ادارے نجی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔
میٹرک کی سطح پر 31 ہزار 740 ادارے تعلیم دے رہے ہیں جن میں سے 12 ہزار 732 ادارے سرکاری جبکہ 19 ہزار سے زائد ادارے نجی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اعلیٰ ثانوی اداروں (ہائر سیکنڈری اسکولز) کی بات کی جائے تو ملک میں 5 ہزار 470 ادارے موجود ہیں جن میں سے 1 ہزار 865 ادارے سرکاری جبکہ 3 ہزار 605 ادارے نجی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ڈگری کالجز کی بات کی جائے تو کل 1 ہزار 418 اداروں میں سے 1 ہزار 259 ادارے سرکاری جبکہ صرف 159 ڈگری کالجز پرائیویٹ شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ملک بھر میں کل 163 جامعات موجود ہیں جن میں سے 91 سرکاری جبکہ 72 نجی شعبے کی ملکیت ہیں۔ تکنیکی تعلیم کے ادارے اس کے علاوہ ہیں۔
نظامِ تعلیم کی صورتحال بہتر کیسے کی جائے؟
ملک میں نظامِ تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ تین سے زائد الگ الگ نظام ہیں۔ سرکاری، نجی اور مدرسہ سسٹم کے تحت تین نظامِ تعلیم ہیں جس کے علاوہ تکنیکی تعلیم اور تعلیمِ بالغاں کے الگ الگ شعبے موجود ہیں۔
ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ بے حد ضروری ہے۔معذرت کے ساتھ تعلیمی ایمرجنسی سے مراد یہ ہے کہ ملک میں جو بھی شخص تعلیم سے بے بہرہ نظر آئے، اسے بیمار سمجھتے ہوئے فوری طور پر اس کا علاج شروع کردیا جائے۔
گھوسٹ اسکولز اور گھوسٹ اساتذہ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے تعلیمی نظام میں بدعنوانیوں پر قابو پانا بے حد ضروری ہے۔ گھوسٹ اسکولز سے مراد ایسے اسکولز ہیں جو وجود ہی نہیں رکھتے اور ان کے فنڈز جاری کیے جاتے ہیں۔
اساتذہ کے گھوسٹ طبقے کی بات کی جائے تو یہ ایسے اساتذہ ہوتے ہیں جو گھر بیٹھے تنخواہ لیتے رہتے ہیں اور کام کے لیے کبھی اسکولوں کا رخ نہیں کرتے۔ ایسے تمام لوگوں کا پتہ چلا کر انہیں فوری طور پر فارغ کرنا ضروری ہے۔
تعلیم کا نظام اسی وقت بہتر ہوسکتا ہے جب حکومت تعلیم کے لیے خاطر خواہ فنڈز مہیا کرے۔ حکومت جی ڈی پی کا محض 2 یا 2.5 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرتی ہے جبکہ یہ شرح 4 سے 6 فیصد ہونی چاہئے۔