قدرت اللہ شہاب پاکستان کے ابتدائی سالوں میں طاقتور ترین بیورو کریٹ تھے جنہوں نے تین سربراہاں مملکت گورنر جنرل غلام محمد،صدر اسکندر مرزا اورصدر ایوب خان کے ساتھ بطور پرنسپل سیکرٹری کام کیا۔
اپنی کتاب شہاب نامہ میں جنرل ایوب خان کی جنگ سے نفرت اور مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کو ترجیح کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب جنگ کے نام سے بھی کتراتے تھے بلکہ جنگ کا نام آتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے،ایوب خان اپنی صدارت کے ابتدائی سالوں میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل جارحانہ اقدامات کے باوجود کہا کرتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کوکسی صورت جنگ نہیں کرنی چاہیے یا پاکستان کبھی ایسی پہل نہیں کرے گا ،تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ جنگ کا نام لیتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے والے صدر ایوب خان کو 1965کی جنگ لڑنا پڑی؟
جنوری 1965:رن آف کیچھ بارڈر پر دونوں افواج میں بے چینی آغاز
پاکستان اور انڈیا کے در میان 1947کی تقسیم کے بعد پہلی جنگ ستمبر 1965 میں لڑی گئی جس کی اپنی تاریخ ہے مگر اس جنگ کی ابتداء اسی سال کی شروعات میں ہوئی جب جنوری کے سرد مہینے میں پاکستان کے صوبے سندھ اور بھارتی ریاست گجرات کے در میان بارڈر پر واقع رن آف کچھ کے علاقے میں دونوں افواج کی آنکھ مچولی شروع ہوئی اوردونوں افواج کے در میان اس ہلچل کی بنیاد 18کلو میٹر کچی سڑک کی تعمیر بنی تھی جو پاکستان کی طرف سے تعمیر کی گئی تھی،پاکستان کی طرف سے یہ سڑک سرحدی علاقے ڈینگ اور سرائی کو ملانے کیلئے تعمیر کی گئی مگر بعض مقامات پر یہ سڑک انڈین بارڈر کے اندر تک گئی ہوئی تھی،پاکستان کو یہ سڑک تعمیر کرنے کا موقع اس لیے ملا کہ اس صحرائی بارڈر پر دونوں جانب سے پولیس یا فوجی گشت بہت کم تھا،جبکہ سردیوں میں تو یہ نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔
دفاعی لحاظ سے یہ سڑک پاکستان کیلئے بہت اہمیت کی حامل تھی کیوں کہ یہاں سے پاکستان ریلوے کا بدین سٹیشن صرف 26میل کے فاصلے پر تھا جہاں سے جنگ کی صورت میں سامان کی ترسیل باآسانی ہو سکتی تھی،دونوں افواج کے در میان تنازع کی ابتداء اس وقت ہوئی جب بھارتی فوج کو اس سڑک کی تعمیر کی خبر ہوئی،یہ خبر بھارتی فوج سے ہوتی ہوئی دہلی میں انڈین وزات خارجہ تک گئی جس پر بھارت نے عالمی سطح پر احتجاج بھی کیا۔سڑک کی تعمیر نے بھارتی فوج کو چوکنا کر دیا جس نے جواب میں اپنے علاقے جروٹ میں فوجی چوکی قائم کر لی ،اس بارڈ ر کی حفاظت کی ذمہ داری اس وقت پاکستان فوج کی آٹھویں کور کے پاس کی جس کی کمان میجر جنرل ٹکا خان کر رہے تھے،ٹکا خان کو بھارت کی طرف سے چوکی کا قیام ایک آنکھ نہ بہایا انہوں نے اس چوکی کو تباہ کرنے کا حکم دیا،بریگیڈئیر اظہر کی کمان میں پاکستانی فوج کے دستے نے مارچ کیا اور چوکی تباہ کر دی۔
بھارتی چوکی کی تباہی اور چھڑپوں کا آغاز
پاکستان کی طرف سے بھارتی چوکی پر حملے کا آپریشن اپریل میں انجام دیا گیا،پاکستانی افواج نے اس چوکی کی تباہی کے بعد مزید دو بھارتی چوکیوں جنگل اور شالیمار پر بھی قبضہ کر لیا،پاکستان آرمی کی طرف سے بھارتی گولہ باری کی وجہ سے بھارتی آرمی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی،جنوری سے اپریل تک 3ماہ کے عرصے میں دونوں طرف سے افواج کو تازہ کمک پہنچ چکی تھی پاکستان کی طرف سے ایک پوری ڈویژن کو حیدرآباد تعینات کر دیا گیا تھا جبکہ بھارت نے ممبئی سے اپنے ٹروپس کیچھ روانہ کیے جن کی کمان میجر جنرل ڈن کے پا س تھی،اس بارڈر پر بھارتی ڈویژن کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سندر جی کا خیال تھا کہ انہیں فوری پاکستان پر حملہ کردینا چاہیے مگر انہیں اپنی حکومت کی طرف سے اس کی اجازت نہیں ملی۔
یہ وہی سندر جی ہیں جو بعد میں بھارت کے آرمی چیف بھی بنے،مئی اور جون کے دو ماہ میں اس بارڈرپر پاکستان اور بھارت کے در میان متعدد چھڑپیں ہوئیں،جنگ سے خوفزدہ بھارت نے برطانیہ سے رابطہ کیا جس کی مداخلت پر دونوں افواج اپنی اصلی پوزیشن پر واپس چلی گئیں۔اگر چہ چھوٹے اور بڑے پیمانے کی ان چھڑپوں کے نتیجے میں بارڈرک کی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی مگر عسکری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان فوج کو محدودپیمانے کی اس جنگ میں بھارت پر واضح برتری حاصل ہوئی،آزادی کے بعد دونوں فوجوں کا یہ پہلا آمنا سامنا تھا جس میں پاکستان کو بھارتی فوج کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوگیا۔ پاکستان کی برتری اور بھارت کی جنگ سے کترانے کی پالیسی نے پاکستانی افواج کے حوصلے بلند کر دیے اورحوصلوں کی بلندی کا یہ احساس جنرل ہیڈ کواٹر راولپنڈی تک بھی پہنچ چکا تھا۔
صدر ایوب،ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل موسیٰ خان کی ٹرائیکا
بھارت نے 50کی دہائی کے آخر اور 60کی دہائی کے شروع میں مقبوضہ کشمیر میں کچھ ایسے اقدامات کیے جن سے پاکستان میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ انڈیا کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کیلئے اقدامات شروع کر چکا ہے،اس عرصے میں پاکستان کی طرف سے متعدد بار کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کیلئے انڈیا سے بیک ڈوڑ چینل اور فرنٹ دوڑ چینل سے رابطہ کیا گیا مگر پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پھر لال بہادر شاستری کسی بھی قسم کی بات چیت سے مسلسل انکار کرتے رہے۔