میرے پاس تم ہو جیسے ڈرامے سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے مصنف و ہدایت کار خلیل الرحمان قمر اور سماجی کارکن ماروی سرمد کے درمیان ایک ٹی وی شو کے دوران نازیبا گفتگو ہوئی جس کی مذمت آج ہر شخص کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ معاشرتی اصولوں اوراخلاقیات کا جنازہ نکالنے والوں کو یہ معاشرہ سر پر کیسے بٹھا لیتا ہے؟ خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کے درمیان غیر اخلاقی گفتگو ہمارے اخلاقی زوال کی داستان بیان کررہی ہے۔
خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کی گفتگو
نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں عورت مارچ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ ماروی سرمد جب کروفر کے ساتھ عورت مارچ اور میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتی ہیں تو میرا کلیجہ ہل جاتا ہے۔
اتنی شدید مذمت پر ماروی سرمد بھی خاموش نہیں رہ سکیں۔ انہوں نے بولنا شروع کیا تو خلیل الرحمان قمر نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ بیچ میں نہ بولیے۔ اس بات پر تکرار اتنی بڑھی کہ ماروی اور خلیل الرحمان دونوں چلانے لگے۔
ماروی سرمد نے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگایا تو خلیل الرحمان ہتھے سے اکھڑ گئے اور انہیں براہِ راست برا بھلا کہنا شروع کردیا اور شدید ناشائستہ زبان استعمال کی۔ سماجی کارکن ماروی سرمد بھی مسلسل بولتی رہیں۔
عورت مارچ کے حقیقی مسائل
خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر بعض خواتین نے نازیبا الفاظ اور تصاویر پر مشتمل بینرز اٹھا لیے جنہیں ایک جانب تو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا جبکہ دوسری جانب اس سے خواتین کے حقیقی مسائل دب کر رہ گئے، یہ عورت مارچ کہلاتا ہے۔
عورت مارچ پر الزام ہے کہ اس کے دوران فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ میرا جسم میری مرضی جیسا نعرہ دراصل اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ خواتین جو چاہے کریں، مرد حضرات سمیت پورا معاشرہ ان سے سوال نہیں کرسکتا۔
اس مادر پدر آزادی کے باعث خواتین کے حقیقی مسائل جیسے کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی، وراثت سمیت دیگر قانونی حقوق سے دستبرداری اور قرآن سے شادی جیسے متعدد مسائل دب کر رہ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت مارچ جن مسائل پر بات کرتا ہے وہ خواتین کے حقیقی مسائل ہیں ہی نہیں۔ کام کرنے والی 50 فیصد سے زائد خواتین گھر نہیں سنبھال سکتیں، تاہم انہیں کسی گھریلو تشدد کا سامنا بھی نہیں۔
حقیقی مسائل کو نظر انداز کرکے غیر اہم چیزوں کو اہم بنا کر پیش کرنے سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ عورت مارچ کا مقصد خواتین کے مسائل کے حل کی بجائے کچھ اور ہے۔
غیر حقیقت پسندانہ عورت مارچ کے باعث ہمارا معاشرہ اخلاقی اقدار سے بتدریج دور ہوتا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب اس کے خلیل القمر جیسے مخالفین کا مخالفت کا غیر اخلاقی طریقہ کار بھی اس آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بن رہا ہے۔
اخلاقی زوال کی وجوہات
میڈیا کو حکومت کی طرف سے دی گئی آزادی اب آزادئ اظہار سے آگے نکل چکی ہے۔ مختلف ڈراموں اور فلموں میں عوام کو منفی کردار دکھا کر یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ بد اخلاقی اور بے حیائی ہی آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے انداز و اطوار بدل گئے ہیں۔ ہم غیر محسوس طور پر اپنی معاشرتی اقدار اور مذہب و ثقافت سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل کے استعمال نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔
اس تنہائی اور تنہائی پسندی کے باعث ملک کی نوجوان نسل غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ ملک میں بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات کو بھی اسی کی ایک کڑی قرار دیا جاتا ہے۔
ٹاک شوز میں مہمانوں کو بلانے کے بعد کیا یہ میڈیا کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ اگر وہ کوئی غیر اخلاقی بات کہیں تو اسے سنسر کیا جائے؟ اگر فیصل واؤڈا فوجی بوٹ لے کر پروگرام میں شامل ہو ہی رہے تھے تو کاشف عباسی کا فرض کیا تھا؟
اسی طرح خلیل الرحمان قمر کی طرف سے بے سروپا گفتگو کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ نجی ٹی وی کے اینکرز بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کیا کہنے والے ہیں، لیکن دونوں مہمانوں کو روکنے یا سنسر کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
ہمارے اخلاقی زوال کی ایک بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ حکمرانوں نے مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل کو اتنا بڑھاوا دیا کہ تعلیم کی طرف کبھی توجہ ہی نہ دی جاسکی اور لوگ روٹی روزی کے چکروں میں ہی لگے رہے۔
مسائل کا حل
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ دل میں ایمان اور حیا دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ایک چلا جائے تو دوسرا بھی چلاجاتا ہے۔
عوام چاہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہا جائے۔ اسلام کے اصول اپنائے جائیں، تاہم صورتِ حال کے اس تمام تر حل کو عملی جامہ اس لیے نہیں پہنایا جاتا کیونکہ ہم سب مسائل کے حل کے لیے متحد نہیں ہوتے۔
قوم کو چاہئے کہ عورت مارچ سمیت ہر غیر اخلاقی تحریک کا نہ صرف بائیکاٹ کرے بلکہ قوم کے ہر فرد کو اپنے کردار کو درست کرنے کے لیے احتساب کے عمل سے بھی گزرنا ہوگا، اس کے بعد نئی صبح کا سورج طلوع ہوگا۔
اگر عوام چاہتے ہیں کہ حکومت اخلاق باختہ مواد اور بے حیائی پر مبنی مظاہروں کو روکے تو اسے اس سب کے خلاف احتجاج کے لیے نکلنا ہوگا۔ معاشرتی مسائل کا حل معاشرتی اصلاحات میں ہے جن کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔