امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں جزوی جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے بعد افغانستان میں کئی عشروں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لئے امن معاہدے کی امیدوں نے جنم لے لیاہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عارضی جنگ بندی پراعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کے بعد اب ایک امن معاہدہ واقعی بہت قریب ہے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے برسلز میں نیٹو کے اجلاس کے بعد جزوی جنگ کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں واحد حل سیاسی معاہدہ ہے اور اس محاذ پر پیشرفت ہوئی ہے۔ ایک روز قبل ہی افغان صدر اشرف غنی نے اطلاع دی تھی کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں قابل ذکر پیشرفت ہوئی ہے۔ دشمنیوں کا خاتمہ اور تشدد میں کمی امن معاہدے کے لئے اہم نکات تھے اور اب ایسا لگتا ہے کہ طویل عرصے سے جاری تنازعہ کا اختتام قریب قریب ہوسکتا ہے۔
عارضی جنگ صرف 7 روز کیلئے کی گئی ہے ،ایک محدود وقفہ ناکافی ہوسکتا ہے تاہم پنٹاگون کے سربراہ کاکہنا ہے کہ اگر امن عمل آگے بڑھا تو معاہدے کاجائزہ لیا جائے گا۔ قطری دارالحکومت دوحہ میں دسمبر سے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیںجبکہ یہ عارضی جنگ بندی مذاکرات میں نمایاں پیشرفت کا اشارہ ہے۔
جنگ سے عارضی امن معاہدہ ہوسکتا ہے جس کے تحت امریکہ کو افغانستان سے ہزاروں فوجیں نکالنا ہونگی، افغان طالبان بدلے میں سیکورٹی کی ضمانتیں فراہم کریں گے اور کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کا آغاز کریں گے ۔ 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد جب سے نیٹو نے افغانستان پر حملہ کیا تب سے افغانستان میں ابھی بھی13ہزارامریکی فوجی موجود ہیں۔ افغان طالبان اب بھی چالیس فیصد علاقے پر قابض ہیں اور اس وقت بھی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کاکہنا ہے کہ تشدد میں نمایاں کمی ہونی چاہئے اور نہ صرف کاغذ کے ٹکڑے پر بلکہ عملی طور پر بھی امن کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
دونوں فریق ایک سال سے زیادہ عرصے سے مذاکرات کررہے ہیں اس کے باوجود امن معاہدہ ایک طویل عرصے سے تاخیر کا شکار رہا ہے ،ٹرمپ نے پچھلے سال اچانک بات چیت ختم کردی تھی لیکن اب اس نے اس معاہدے کی منظوری دے دی ہے تاکہ امریکی فوجوں کا انخلاء شروع کیا جاسکے۔ امریکی صدر امن معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں جب وہ اپنے سال کے آخر میں دوسری صدارتی مدت کی طرف جارہے ہیں۔