قومی اسمبلی میں گذشتہ کئی دنوں سے انتشار اور افراتفری کی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے جس کے باعث پارلیمنٹ ہاؤس کی حرمت متاثر ہورہی ہے، وفاقی بجٹ پر تبادلہ خیال کے لئے ایک اجلاس طلب کیا گیا تھا لیکن اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران دونوں منتخب بینچوں کے اراکین پارلیمنٹ نے ہنگامہ برپا کردیا جس کے بعد غیر پارلیمانی رویہ اختیار کیا۔
حکومت نے اپنا تیسرا بجٹ منظور کیا،جس کو تاجر برادری کی جانب سے سراہا گیا، لیکن اپوزیشن کی جانب سے اسے مسترد کردیا گیا۔ حزب اختلاف کی دو اہم جماعتیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بجٹ کو منظور ہونے سے روکنے کا ارادہ کیا تھا۔ جب شہباز شریف نے تقریر شروع کی تو، اسمبلی اکھاڑے میں تبدیل ہوگئی اور قانون دان آپس میں ایک دوسرے سے لڑ پڑے، منتخب وزراء کو عوام نے لڑتے جھگڑتے ہوئے دیکھا، اس دوران بجٹ کی کتابوں کو ایک دوسرے پر پھینکا گیا، تاکہ اس کا قوم کے سامنے مذاق بن سکے۔
یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ اس خوشگوار واقعے کو کس کی جانب سے متحرک کیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات کا جواز نہیں بنتا، اس طرح کے واقعات سے ہماری عوام نے کیا اثر لیا ہوگا؟ اپوزیشن کا حق ہے کہ بجٹ پر اعتراضات اٹھائے جسے منظور کیا جانا چاہئے۔ تاہم، اس کو پارلیمانی ضابطہ اخلاق کے مطابق مہذب اور جمہوری انداز میں انجام دیا جانا چاہئے۔
مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی جانب سے اس واقعے کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایاجارہا ہے، قومی اسمبلی کے اسپیکر نے سات ایم این ایز کو اگلے احکامات تک پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ یہ ناکافی ہوسکتا ہے کیونکہ جسمانی تشدد اور غنڈہ گردی کی کارروائیوں کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی اور اظہار میں مذمت کی جانی چاہئے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت ایکشن لینا ضروری ہے۔
قانون سازوں کو قومی کے لئے ترقی کے اہم امور پر قانون سازی اور تبادلہ خیال کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر اس طرح کے اقدامات قابل قبول نہیں ہیں۔ شاید بہتر معنوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اس طرح کے واقعات سیاست دانوں پر لوگوں کے اعتماد کو متاثر کریں گے، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے معاملات کو سنجیدگی سے حل کریں۔