کراچی نے مسلسل تین دن تک ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) کے مطابق دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہونے کا “اعزاز” اپنے نام کیا ہے، جو شہر میں انسانی صحت کیلئے واضح طور پر خطرے کا الارم ہے۔
رپورٹ کے مطابق AQI نے اپنے جائزے میں کراچی کے لیے 220 کی ریڈنگ رجسٹر کی، جبکہ معیار کے مطابق 200 سے اوپر جانا نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں کراچی کے لوگ ایسے ذرات پر مشتمل ہوا میں سانس لے رہے ہیں جو براہ راست سانس کی بیماریوں کو جنم دے سکتے ہیں اور پہلے سے موجود الرجی کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔
اس صورتحال پر مختلف پالیسی سطحوں پر تشویش پیدا ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی فلیگ شپ کلائمیٹ کانفرنس، COP28 کے قریب آنے کے ساتھ ہمارے ماحول اور میٹروپولیٹن علاقوں پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی حل تلاش کرنا چاہیے۔ دیگر ممالک کے محفوظ صنعتی اخراج کی سطح سے زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو آب و ہوا سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں دنیا سے انصاف طلب کرنا چاہئے۔
مزید یہ کہ ذمہ داری بہرحال حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ شہری منصوبہ بندی اور انتظام سے متعلق پالیسیاں ضلعی اور صوبائی انتظامیہ سے آنی چاہئیں، مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ اگر شہر بے ترتیب انداز میں بڑھتے رہیں گے، تو ہم ان میں گرینری اور شادابی کی کیسے توقع رکھ سکتے ہیں۔ بلا شبہ ہمارا شہری اسٹرکچر بغیر کسی مناسب پلاننگ کے کھڑا ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہماری ترجیحات میں ماحول کیلئے بہت کم جگہ بچ پاتی ہے۔
یہ بحران فوری ردعمل کا متقاضی ہے۔ لاہور میں اسموگ کی سالانہ موجودگی اور کراچی میں ہوا کے بگڑتے معیار سے شہریوں کی صحت اور تندرستی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
یہ ایک خاموش ہیلتھ ایمرجنسی ہے جو خود حل نہیں ہوگی۔ اس کے لیے فعال پالیسیوں اور ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے اور سلسلے میں عالمی برادری کا تعاون بھی درکار ہوگا۔