سابق وزیر اعظم عمران خان اگر کسی معمول کی جمہوری سرگرمی کے نتیجے میں عوامی ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہوتے تو اقتدار سے نکالے جانے پر اتنے بے چین نہ ہوتے۔ وہ بھی نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی طرح اپنے غم و غصے کا وقتی اظہار کرکے آگے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے۔ اور اپنے ساتھیوں سے کہتے، اقتدرا آتا بھی ہے اور جاتا بھی ہے۔
جب اقتدار چلا جاتا ہے تو مستقل جدوجہد کے نتیجے میں ایک بار پھر واپس بھی آجاتا ہے۔ یوں اگلا الیکشن آتا تو اس میں اپنے پچھلے دور کے کارنامے بھی گنواتے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ انہیں وقت سے قبل اقتدار سے نکال کر ان عظیم منصوبوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی جو انہوں نے اپنے پہلے دور میں شروع کئے تھے۔ الیکشن کا نتیجہ ان کے خلاف بھی آتا تو اسمبلی میں جاکر حزب اختلاف کی نشستیں سنبھال لیتے اور نئی حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کرتے۔ رفتہ رفتہ اس مزاحمت کی حدت بڑھاتے اور اسے کسی ایسے مرحلے تک لے کر جاتے جہاں تحریک عدم اعتماد یا سڑکوں پر احتجاج جیسی آئینی و قانونی سرگرمیاں کرتے۔ اگر ان کے مؤقف میں دم ہوتا تو اس کا سب سے بڑا فائدہ انہیں یہی ہوتا کہ اگلے انتخابات میں ایک بار پھر جیت کر آجاتے۔
رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالمز پڑھیں: