غلطی ٹھیک کرنے کی کوشش

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق وزیر اعظم عمران خان اگر کسی معمول کی جمہوری سرگرمی کے نتیجے میں عوامی ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہوتے تو اقتدار سے نکالے جانے پر اتنے بے چین نہ ہوتے۔ وہ بھی نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی طرح اپنے غم و غصے کا وقتی اظہار کرکے آگے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے۔ اور اپنے ساتھیوں سے کہتے، اقتدرا آتا بھی ہے اور جاتا بھی ہے۔

جب اقتدار چلا جاتا ہے تو مستقل جدوجہد کے نتیجے میں ایک بار پھر واپس بھی آجاتا ہے۔ یوں اگلا الیکشن آتا تو اس میں اپنے پچھلے دور کے کارنامے بھی گنواتے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ انہیں وقت سے قبل اقتدار سے نکال کر ان عظیم منصوبوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی جو انہوں نے اپنے پہلے دور میں شروع کئے تھے۔ الیکشن کا نتیجہ ان کے خلاف بھی آتا تو اسمبلی میں جاکر حزب اختلاف کی نشستیں سنبھال لیتے اور نئی حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کرتے۔ رفتہ رفتہ اس مزاحمت کی حدت بڑھاتے اور اسے کسی ایسے مرحلے تک لے کر جاتے جہاں تحریک عدم اعتماد یا سڑکوں پر احتجاج جیسی آئینی و قانونی سرگرمیاں کرتے۔ اگر ان کے مؤقف میں دم ہوتا تو اس کا سب سے بڑا فائدہ انہیں یہی ہوتا کہ اگلے انتخابات میں ایک بار پھر جیت کر آجاتے۔

رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالمز پڑھیں:

آئین شکن

پی ٹی آئی کا مستقبل

یہی وہ طرز عمل تھا جو نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہمیں ماضی میں دکھا چکی ہیں۔ کوئی شک نہیں 90 کی دہائی میں ان دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف ایسے اقدامات بھی کئے جس کا فائدہ اسٹیبلیشمنٹ نے اٹھایا لیکن انہوں نے جمہوری عمل کو جام کرنے یا پٹڑی سے ہی اتارنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ مثلاً ایسا کبھی نہ ہوا کہ سابق صدور نے کسی وزیر اعظم اور اس کی کابینہ سے حلف لینے سے انکار کردیا ہو یا اس سے بچنے کے لئے بیماری جیسی غلط بیانی کا سہارا لیا ہو۔ کسی گورنر نے بھی نئی آنے والی صوبائی حکومت کے حلف میں تاخیری حربے اختیار نہیں کئے۔ حتیٰ کہ کسی اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر نے بھی وہ کچھ نہیں کیا جو اسد قیصر اور اسٹے آڈر پر اسمبلی میں بیٹھے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے کیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے دوران انہی کی پارٹی کے  اسپیکر سید یوسف رضا گیلانی نے تو اسپیکر کی کرسی کا اس حد تک آئینی استعمال کیا کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو نے شیخ رشید احمد کو جیل میں ڈالا تو اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لئے یوسف رضا گیلانی نے ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کردیئے۔ محترمہ نے انہیں منع کیا مگر وہ نہیں مانے۔ اور صورتحال یہ ہوگئی  کہ محترمہ یوسف رضا گیلانی سے ناراض ہوگئیں مگر گیلانی صاحب نے صاف کہدیا کہ میں غیر جانبدار  اسپیکر ہوں۔ وہی کروں گا جس کا یہ کرسی مجھ سے تقاضا کرتی ہے۔ اس حرکت پر نہ تو محترمہ نے اپنے اسپیکر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی اور نہ ہی حکومت کے خاتمے کے بعد یوسف رضا گیلانی کو پارٹی سے نکالا گیا۔ گویا محترمہ نے قبول کرلیا کہ یوسف رضا گیلانی کا طرز عمل درست تھا۔ اور یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔

مگر یہ سب وہ جمہوری جماعتیں کر پاتی ہیں جو جمہوری تاریخ اور جمہوری روایات رکھتی ہیں۔ نواز شریف کو تین اور محترمہ بینظیر بھٹو کو دو بار اقتدار سے نکالا گیا۔ انہوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے کوئی گھٹیا غیر آئینی ہتھکنڈے اختیار نہیں کئے۔ وہ خود وزیر اعظم ہاؤس سے روانہ ہوگئے۔ انہیں دھکے دے کر نہیں نکالنا پڑا۔ انہیں قیدیوں والی بسیں دکھانے کی نوبت بھی نہیں آئی۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے خاتمے کا معاملہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ انہیں جانے بھی نہیں دیا گیا بلکہ قید کرلیا گیا۔ اس قید کے لئے ان پر جو الزام لگایا گیا اور جس کی انہیں طویل قید و نا اہلی کی سزا سنائی گئی وہ اتنا بوگس تھا کہ بعد میں سپریم کورٹ نے اسے ختم کردیا۔

عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے اقتدار کو تو بابا رحمتے اور جنرل برکتے نے ممکن بنایا تھا۔ جب ان کا پہلا اقتدار ہی عوامی نہ تھا بلکہ پہلے روز سے ہی انہیں سلیکٹیڈ  کا خطاب مل گیا تھا تو اب اس قدر بری کارکردگی کے ساتھ وہ کسی بابا رحمتے اور جنرل برکتے کی مدد کے بغیر کیسے اقتدار میں واپس آسکتے ہیں ؟ تین کامیاب جلسوں کے بعد بھی ان کی ایک پریس کانفرنس کی جو تصاویر مین اسٹریم اور سوشل میڈیا میں آئی ہیں، ان میں سے ہر تصویر کسی انتہائی مایوس گروہ کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ جن جلسوں کی کامیابی پر سوشل میڈیا پر موجود ہر یوتھیا خوشی سے نہال ہے، انہی جلسوں کی کامیابی کے باوجود عمران خان اور ان کی ٹیم انتہائی صدمے والی کیفیت میں کیوں ہے ؟ انہیں تو خوشی سے نہال ہونا چاہئے کہ بہت تاخیر بھی ہوگئی تو آٹھ دس ماہ میں اگلا الیکشن ہوگا اور ہم ایک بار پھر جیت کر آجائیں گے۔ اور یہ جیت انہیں اس لئے یقینی لگنی چاہئے کہ جلسے بہت کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان کامیاب جلسوں کی بنیاد پر خان صاحب کو تو اپنی عادت کے مطابق یہ بھی کہدینا چاہئے کہ “نہیں چھوڑوں گا، جلد واپس حکومت میں آکر سارے چور اندر کردوں گا” مگر وہ تو یہ بھی نہیں کہہ رہے۔ ان کا اور ان کی ٹیم کا تو بدستور صدمے سے برا حال ہے۔

سو اس پس منظر میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک سوال تو یہ کہ یہ کامیاب جلسے پی ٹی آئی قیادت کے چہروں پر رونق کیوں نہ لا سکے ؟ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ سوال یہ بنتا ہے کہ ان کامیاب جلسوں نے پی ڈی ایم کے چہروں پر کسی پریشانی کے آثار کیوں پیدا نہیں کئے ؟ پشاور میں تو چلیں ان کی اپنی صوبائی حکومت تھی۔ آخر لاہور اور کراچی والے جلسوں میں کوئی رکاوٹ کیوں پیدا نہیں کی گئی ؟ جواب یعنی وجوہات تین ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کی تاریخ کا سب سے کامیاب جلسہ 2011ء والا لاہور کا جلسہ تھا۔ لیکن جب 2013ء کا الیکشن آیا تو پنجاب سے پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی صرف 13 نشستیں جیت سکی۔ اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں ملا کر بھی پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں کل سیٹوں کی تعداد فقط 35 تھی۔ سو خان صاحب اور ان کی ٹیم اچھی طرح جانتی ہے کہ کامیاب جلسہ انتخابی جیت کی ضمانت نہیں۔ یہ صرف یوتھیا ہے جو اس پر خوش فہمی میں مبتلا ہوکر مسرت سے ناچ سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کی مایوسی اور پی ڈی ایم کی بے فکری کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خان صاحب کے سر پر فارن فنڈنگ کیس کی تلوار اب بس گرنے کو ہی ہے۔ اگر اس کیس میں فارن فنڈنگ اور اس فنڈ میں فراڈ ثابت ہوگیا تو خان صاحب کے سیاسی کیریئر کا تمت بالخیر ہوجائے گا۔ تیسری وجہ یہ کہ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اگلا الیکشن صاف و شفاف ہونا خود اسٹیبلیشمنٹ کی بھی ضرورت بن گیا ہے۔ ادارے اپنے دامن پر لگے داغ صاف کرنے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں۔ وہ 2018ء تھا جب تصور یہ تھا کہ “داغ تو اچھے ہوتے ہیں” گویا بظاہر اگلے الیکشن میں کسی بابا رحمتے یا جنرل برکتے کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آرہا۔ اور یہی وجہ ہے کہ کراچی کے جلسے میں عمران خان نے کسی نامعلوم کو “غلطی” ٹھیک کرنے کا مشورہ دیا۔ سازش تو ان کے بقول امریکہ نے کی تھی مگر پتہ نہیں غلطی کس کی جانب منسوب کی جارہی تھی۔ اور صاف بتایا کیوں نہیں گیا کہ غلطی سے مراد کیا ہے ؟ ظاہر ہے 10 سالہ منصوبہ بحال کرنے کی فرمائش ہو رہی تھی۔ گویا خان صاحب یہ جانتے ہی نہیں کہ ان دنوں ملک کے سیاسی منظر نامے پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلطی ٹھیک کرنے کی ہی کوشش ہے۔ ایک آئین پسند شہری کے طور پر مجھ ناچیز کو قوی امید ہے کہ 2018ء والی غلطی ٹھیک کرنے کی تمام کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔

Related Posts