ملٹری کورٹس میں شہریوں کا ٹرائل، سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 26 جون تک ملتوی کردی

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست کی سماعت پیر 26 جون تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے عید سے پہلے کیس کا فیصلہ سنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ منگل تک اس کیس کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فوج چارج کرسکتی ہے ٹرائل سول عدالت میں چلے گا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے نے ریمارکس دیئے ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی، ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کا آغاز ہوگیا۔

سپریم کورٹ میں لارجر بینچ کی سماعت کے باعث دیگر بینچز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی، سپریم کورٹ میں 3 معمول کے بینچز نے مقدمات کی سماعت کرنا تھی۔

سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا، میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہوسکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں، میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرادیئے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میرا مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص شہریوں کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟، کن وجوہات کی بناء پر شہریوں کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟۔

جسٹس منصور نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، انہوں نے پوچھا کہ سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟، جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کررہے تو قانون کی بات کریں۔

فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جاکر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہوگا ان کو اپیل کا حق ملے گا لیکن جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگتا ہے؟، آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے یہ بتادیں، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں ملزمان کی فوجی عدالتوں کو حوالگی کی درخواست نہیں دی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیں:

ایشیا کی بہترین یونیورسٹیز کی فہرست جاری، پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش پر سبقت لے گیا

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ قانوناً اگر فوج سویلین کی حوالگی کا کہتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، فوج چارج کرسکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، کمانڈنگ افسر انتظامی جج سے کس بنیاد پر سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟، کوئی دستاویز تو دکھادیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ ہوتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔

جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ آپ یہ نہیں بتاسکے کہ کن درج مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں، یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

فیصل صدیقی کی جانب سے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، اسٹیٹ سیکیورٹی کی حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرادی، جس میں بتایا گیا ہے کہ 9 مئی کو کتنے لوگوں کو پنجاب سے گرفتار کیا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو فوجی عدالتوں کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضے پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کیخلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھجا گیا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کیخلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاؤں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھیجا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے دلائل متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کیلئے مختص ہے، بے شک 3 بجے تک دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ فوج کے اندر کام کرنے والا بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ آپ بتائیں ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے، عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔

جسٹس مظاہرہ اکبر نقوی نے کہا کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بنا سکے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں، اگر ایف آئی آر میں افیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟۔

جسٹس منصور نے کہا کہ آپ سے دو سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ پراسس بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوگا؟، آرمی کے اندر اس فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے۔

فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ کریمنل پروسیجر کی سیکشن 549 میں اس کا جواب ہے۔ جسٹس منصور نے کہا کہ اگر 549 میں اس کا جواب نہ ہوا تو جرمانہ ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوئری یا انویسٹی گیشن تو ہونی چاہئے، ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟۔ سول سوسائٹی کے وکیل نے کہا کہ آفشیل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پر بھی ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا آپ ان مقدمات میں پراسیس کا بتائیں۔

فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہئے، تاریخ میں کبھی 1998 کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے، اگر کیس کسی آرمی افسر پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی۔

جواد ایس خواجہ کے وکیل محمد حسین کے دلائل

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کورٹ مارشل کارروائی کے فیصلے آسانی سے میسر نہیں ہوتے۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کورٹ مارشل کارروائی کرتا کون ہے؟۔ احمد حسین نے بتایا کہ ایک پینل ہوتا ہے جو کارروائی کنڈکٹ کرتا ہے، ملٹری کورٹ فیصلے میں صرف اتنا لکھتی ہے کہ قصور وار ہے یا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب فیصلے میں وجوہات کا ذکر ہوتا ہے یا نہیں اٹارنی جنرل بتاسکتے ہیں، ملٹری کورٹس میں اپیل کا تصور بھی آرمی افسران کے پاس ہی ہے، آرمی چیف ہی سارے پراسس میں فائنل اتھارٹی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس کہا کہ آپ کے مطابق آئین کے کون سے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متاثر ہوں گے۔ احمد حسین کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 9، 10 اور 25 میں دیئے گئے حقوق متاثر ہوں گے، اگر عدالت سمجھتی ہے 21 ویں ترمیم کے بعد اس کے ہاتھ بندھے ہیں تو فل کورٹ ہی بنا لیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا کہ فوجی عدالتیں مخصوص حالات کیلئے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کئے گئے۔

وکیل احمد حسین نے دلائل میں کہا کہ کلبھوشن یادو کیلئے اپیل کا خصوصی قانون بنایا گیا، کلبھوشن یادیو کیلئے قانون بنایا گیا کہ دیکھا جائے ویانا کنونشن میں حاصل حقوق متاثر تو نہیں ہوئے، پہلے سے موجود قانون میں شہریوں کیلئے فیئر ٹرائل جیسی چیزیں موجود نہیں تھیں، آرمی ایکٹ ڈیزائن ہی فورسز کے اندر ڈسپلن کیلئے کیا گیا تھا، آرمی کی سینئر کمانڈ نے پریس ریلیز میں دو نتائج اخذ کیے، پریس ریلیزمیں کہا گیا 9 مئی کو ملٹری تنصیبات پر حملہ کیا گیا، پریس ریلیز میں کہا گیا حملے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، یہ نتائج پہلے سے اخذ کرنے کے بعد وہ خود اس معاملے کے جج نہیں ہو سکتے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے 1975ء کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں جو حصہ سویلینز سے متعلق ہے اس پر عدالت فیصلہ کرسکتی ہے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ تو فوج سے متعلق ہی قانون ہے تفریق کیسے کریں گے، آپ کہہ رہے ہیں آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاتا، پھر آپ کہتے ہیں نہیں یہ سویلین کی بات بھی کرتا ہے اسے عدالت دیکھے۔

احمد حسین نے مزید کہا کہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے اتنے ساری شہری کس بناء پر کورٹ مارشل کا سامنا کرنے جا رہے ہیں، ہمیں نہیں پتہ ان پر کیا چارج لگنے جا رہا ہے، حکومت ہی بتائے گی تفصیلات کیا ہیں، عام عدالتوں میں کیس کیوں نہیں چل سکتا، سویلین کا ملٹری ٹرائل آئین سے مطابقت نہیں رکھتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس بحث میں نہیں جانا چاہئے کہ سویلین کا آرمی ایکٹ سے کبھی ٹرائل ہو بھی نہیں سکتا، اگر کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے مل کر ریاست مخالف کچھ کرے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، ایسی صورتحال میں دونوں کے درمیان تفریق نہیں کی جاسکتی، کلبھوشن یادیو کیلئے قانون عالمی عدالت کے فیصلے پر بنا، ہم کچھ دیر کیلئے اٹارنی جنرل کو بھی سننا چاہتے ہیں، ہم نے ایک سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ کیلئے بھی جانا ہے۔

احمد حسین کا کہنا ہے کہ تحریری دلائل بھی جمع کروا دوں گا مگر درخواست کا پیراگراف 59 پڑھنا چاہتا ہوں، جسٹس منصور علی شاہ نے حالیہ فیصلے میں کہا تھا بول کے لب آزاد ہیں تیرے، میری گزارش ہوگی کہ اب اس اہم معاملے پر بولیں۔ جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے دلائل مکمل ہوگئے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی گرفتار شخص نہیں، پشاور میں 4 لوگ زیر حراست ہیں، پنجاب میں ایم پی او کے تحت 21 افراد گرفتار ہیں، انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 141 افراد گرفتار ہیں، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 345 افراد گرفتار ہوئے اور 70 رہا ہوئے، ایم پی او کے تحت 117 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں، کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملٹری کورٹ میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں میں تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے، چیف جسٹس آف پاکستان نے عید سے پہلے کیس کا فیصلہ سنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ منگل تک اس کیس کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں۔ کیس کی سماعت پیر (26 جون) ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

Related Posts