موسمیاتی تبدیلی اور کراچی سے گلگت بلتستان کا سفر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گذشتہ مہینے گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالےسےٹی آر سی کی کلسٹرکانفرنس میں شرکت کے لئے جانا ہوا، براستہ ہوائی سفر کراچی سے اسلام آباد اور پھر 45منٹ میں سکردو سے بذریعہ کوسٹر 4 گھنٹے کا طویل سفر کرکے گلگت سکردو روڈ سے گلگت بلتستان پہنچے۔

جب کراچی سے ہوائی سفر کا آغاز ہوا تو ہرطرف مکان ہی مکان نظر آئے بہت کم درخت نظر آرہے تھے یوں کہہ لیں کہ نہ ہونے کے برابر، آج کل ہیٹ ویوو چل رہی ہے، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہی درختوں کا نہ ہونا ہے۔

آج سے تقریباً 20 سال پہلے ہر گھر میں درخت ہوا کرتے تھے یعنی اگر کسی کا 80گز کا پلاٹ یا اس سے زیادہ کا ہے تو درخت یا پودوں کے بغیر وہ گھر ادھورے سمجھے جایا کرتےتھے لیکن یہاں درختوں کی جگہ ٹائلز اور رہائشی ضرورتوں کے اضافے نے لے لی ہے۔

ہمیں یا د ہے کہ کراچی کے موسم کی مثال دی جاتی تھی کہا جاتا تھا کہ دن میں بھلے تھوڑی گرمی ہے لیکن شام اور رات ٹھنڈی ہے اب ہر گزرتے دن کے ساتھ موسم یکسر تبدیل ہوچکا ہے ۔ یہاںشام اور رات بھی گرم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہی درختوں کا نہ ہونا ہے ۔ درخت نہ لگانا اور لگے درخت کاٹنا موسمیاتی تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں۔

اسلام آباد میں ایک دن کے قیام کے بعد پھر گلگت کے سفر کا آغاز ہوا دوران سفر بلندی سے جب نیچے دیکھا تو پہاڑوں نے سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی راکا پوشی چوٹی ، دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ K-2 (جسے قاتل پہاڑ بھی کہاجاتا ہے )نانگا پربت، تیرچ میر جو ہندو کش سلسلے کا بلند ترین پہاڑ ہے۔

سکردو انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اترنے کے بعد ائیر پور ٹ چاروں طرف پہاڑوں کے دامن میں تھا ۔ائیر پورٹ کا نظارہ بہت خوبصورت تھا ۔ ائیر پورٹ کے باہر کوسٹر کھڑی ہمارا انتظار کررہی تھی جس پر 4 گھنٹے کا طویل سفر کرنا تھا ۔ ہماری ٹیم باراستہ گلگت سکردو روڈ پر سفرکے لئے رونہ ہوئی اس سڑک کی لمبائی 167کلومیٹر ہے یہ سڑک سطح سمندر سے 2.226 میٹر (7.303فٹ) کی بلندی پر ہے یہ دنیا کی خطرناک ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔

ساتھ میں دریائے سندھ (Indus River ) چل رہا تھا ۔ دیکھنے میں یہ ایک خوبصورت منظر نظر آرہا ہے لیکن سفر خطرناک تھا ۔ جگہ بہ جگہ دیکھا کہ پہاڑوں سے پتھر سرک کر یعنی لینڈ سلائیڈنگ نظر آرہی ہے گاڑی چلتے ہوئے کبھی کبھی ایسا لگا کہ لینڈ سلائیڈنگ ہونے لگی ہے۔

لینڈ سلائیڈنگ بھی موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہے ۔ جیسے جیسے موسم تبدیلی ہورہاہے بارشوں میں بے حد اضافہ ہورہا ہے محکمہ موسمیات پاکستان کے ترجمان کے مطابق صرف اپریل میں معمول سے زیادہ 164 فیصد بارشیں ہوئی ہیں اور برف باری کہیں زیادہ ہور ہی ہے۔ یہ وجوہات ہیں کہ لینڈ سلائیڈنگ میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔

گلگت پہنچنے کے بعد مقامی ہوٹل میں قیام کرکے دوسرے دن علی الصبح گلگت کو دیکھنے کے لئے نکلےڈیڑھ گھنٹے کاسفر 66.6کلومیٹر طے کرکے راکا پوشی ویو پوائنٹ پہنچے پہاڑ سے نیچے آنے والے پانی میں بیٹھ کر قدرت کے نظارے سے لطف اندوز ہوئے مقامی لوگوں سے گفتگو کی اور پتہ چلا کہ یہاں پہلے بہت سے پرندھے ہوا کرتے تھے عوام کا ان پرندوں سے اس قدر لگاؤ تھا کہ اپنے بچوں کے نام پرندوں کے ناموں پر رکھا کرتے تھے ۔ جو اب نظر نہیں آتے وہ یہاں سے نکل مقانی کرچکے ہیں ۔ وجہ دریافت کی تو پتہ کہ یہ بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہی ہے۔

راکا پوشی ویو پوائنٹ سے التیت قلعہ ( Altit fort) وادی ہنزہ 52 منٹ 33 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے پہنچے وہاں التیت قلعہ کے بارے میں سیاحتی رہنما (Tourist Guide )نے قلعہ کے بارے میں بتایا کہ یہ قلعہ 11000 فٹ (3300میٹر) بلند ی پر ہے یہ قلعہ 900سال پرانا ہے اور 11 ویں صدی میں وہاں کے ایک رہنما نے اسے بنوایا تھا اس قلعے نے جنگوں اور لوگوں کی نقل وحرکت جیسے بہت سے واقعات دیکھے۔

التیت قلعہ پر کھڑے ہوکر دیکھا کہ چاروں طرف پہاڑوں پر پتھر سرک سرک کر نیچے آرہے ہیں موسمیاتی تبدیلی کے باعث لینڈ سلائیڈنگ میں اضافے کے بعد وادی ہنزہ کے لوگ بھی پریشانی میں مبتلا ہیں۔

التیت قلعہ وادی ہنزہ سے عطاء آباد جھیل ایک گھنٹہ 20 منٹ تقریباً37کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے باراستہ قرار قرم ہائی وے جو 15466 بلند ہے جو دنیا کی بلند ترین سڑکوں میں سے ایک ہے کہ ذریعے پہنچے ۔ قراقرم ہائی وے پر جسے سے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے دیکھا قراقرم سرنگ (Karakoram Tunnel)جس کی لمبائی 3.360 میٹر (11.020فٹ) لمبی ہے سے گزر ہوا ۔

قرا قرم ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے قدرت کے حسین مناظر کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی ( Climate Change) کے گہرے اثرات دیکھے شدید بارشوں اور برف باری کے باعث جگہ بہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ کے مناظر دیکھے مقامی لوگوں سے گفتگو کے بعد بتایا گیا کہ کئی بار قراقرم ہائی وے لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند ہوئی ہے ۔ جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

عطاآباد جھیل 4جنوری 2010میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث وجود میں آئی ۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ ایک پورا گاؤں اس لینڈ سلائیڈنگ کی نظر ہوگیا اور عطا آباد جھیل کے اندر ایک پورا گاؤں ہے۔ عطا آباد جھیل بظاہر بہت خوب صورت نظر آرہی ہے۔ جھیل کے پانی کا رنگ بہت دلکش ہے لیکن عطا آباد جھیل کو دیکھنے کے بعد موسمیاتی تبدیلی کس قدر خطرناک ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے ۔ واپسی پر گلگت بلتستان کا روایتی کھیل پولو دیکھنے کے لئے رکے پہاڑوں کے دامن میں اس کھیل کو دیکھ بہت لطف اندوز ہوئے ۔

ایک پورا دن گلگت ، راکا پوشی ویو پوائنٹ ، وادی ہنزہ، قراقرم ہائی وے ، عطا آباد جھیل دیکھنے کے بعد واپس گلگت مقامی ہوٹل میں پہنچے اور قرارقرم دوسرےدن یونیورسٹی گلگت بلتستان یونیورسٹی میں کلسٹر کانفرنس جس کا عنوان “موسمیاتی تبدیلی کی تعلیم کی فوری ضرورت – مقامی اور پائیدار موسمیاتی اقدامات کے لیے نوجوان رہنماؤں کو شامل کرنا ہے” منعقد ہوئی جس میں یونیورسٹی کے پروفیسر ز گلگت بلتستان حکومت کے نمائندے ، موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین اور آرگنائزر ٹیچرز ریسورس سینٹر کے اراکین سمیت طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مقررین نے جب موسمیاتی تبدیلی پر بات کرنا شروع کی تو ان کو سن کر میں دھگ رہ گیا کہ یہاں کہ لوگ کس قدر موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں جانتے ہیں ، مقررین کے خطاب کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو یونیورسٹی کے طلباء نے سوالات کی بوچھاڑ کردی جو اس بات کا واضح ثبوبت ہے کہ گلگت کے نوجوان موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں کس قدر فکر مند ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں امریکی قونصل خانے اور ٹیچرز ریسورس سینٹر کے اس اقدام کو سراہا گیا۔

گلگت بلتستان کے نوجوانوں کا موسمیاتی تبدیلی کی اس کلسٹر کانفرنس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کر نا باعث مسرت ہے ۔ 4 دن گلگت بلتستان میں گزارے مقامی لوگوں کی محبت پیار خلوص قابل تحسین ہے۔ ایک یاد گار سفر جوموسمیاتی تبدیلی کی فکر مندی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

Related Posts