کورونا وائرس کی تیسری لہر ملک میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مثبت کیسز کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، صورتحال مزید خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے، جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں وبائی مرض کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کیلئے کسی ایک منصوبے یا پلان پر ابھی تک متفق نہیں ہوسکی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تیسری لہر پہلی دو لہروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے لیکن انہوں نے مکمل لاک ڈاؤن کے اقدام کو مسترد کردیا ہے کیونکہ ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، حکومت سندھ نے دو ہفتوں تک لاک ڈاؤن نافذ کرکے کورونا کے کیسز کی تعداد کو کنٹرول کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ مگر لاک ڈاؤن یا حفاظتی تدابیر کی بات ہو تو صوبائی حکومت اس سے اختلاف کرتی ہے۔
ایک جانب جب وفاقی حکومت 8بجے کے بعد تجارتی سرگرمیاں معطل کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہی تھی، تو حکومت سندھ نے دو گھنٹے کی نرمی کی پیش کش کی۔ صوبائی حکومت نے انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر مرکز کسی فیصلے پر نہیں پہنچتا ہے تو بین الصوبائی ٹرانسپورٹ اور دیگر پابندیاں عائد کردی جائیں گی، حکومت کے پاس اپنے قواعد و ضوابط کو نافذ کرانے کے لئے رٹ کی کمی ہے اور بازار اور کاروباری مراکز دیر تک کھلے دکھائی دیتے ہیں جبکہ لوگ کھانے پینے کے لئے سڑکوں پر آجاتے ہیں، جبکہ دوسری جانب حکومت سندھ نے وزیر تعلیم کے اجلاس کا انتظار کیے بغیر اسکول بند کردیئے۔
وبائی بیماری کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے بعد عوام کی جانب سے کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جارہیں، لوگوں میں اطمینان ہے اور کوئی بھی پریشان دکھائی نہیں دیتا، جبکہ لوگوں کی اکثریت ماسک پہننا بھی گوارا نہیں کرتی، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں دوبارہ کورونا کی لہر نے سر اُٹھانا شروع کردیا ہے، جبکہ ویکسینیشن کے باوجود یورپی ممالک ابھی تک لاک ڈاؤن میں ہیں، دوسری جانب ہم ابھی بھی پابندیاں نافذ نہیں کررہے۔
ہمیں سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے، اگر انتہائی احتیاط نہیں برتی گئی تو کورونا کی تیسری لہر خطرناک شکل اختیار کرسکتی ہے، پنجاب اور اسلام آباد میں صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کراچی میں بھی خطرہ ہے۔ صوبائی حکومت کو یکطرفہ فیصلے کرنے کی بجائے وائرس کی روک تھام کے لئے این سی او سی کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرنا چاہئے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ کاروبار کے لئے ایک مربوط حکمت عملی مرتب کرے جو وہ گذشتہ ایک سال سے ناکام ہوچکی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ پالیسیاں وبائی مرض پر قابو پانے کے لئے موثر نہیں ہیں۔ چونکہ عوام ان بگڑتے ہوئے حالات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، لہٰذاحکومت کوسخت فیصلے اور یہاں تک کہ سخت پابندیاں عائد کرنے مجبور کیا جارہا ہے۔