اسرائیل نے شادی والے دن دولہے کا گھر مسمار کر دیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسرائیل مظلوم فلسطینیوں پر فزیکلی ظلم و ستم کا کوئی موقع جانے دیتا ہے اور نہ ہی کوئی حربہ۔ یہاں تک کہ فلسطینیوں کا حوصلہ توڑنے کیلئے بھی ظلم کے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔

فلسطینیوں پر ہمہ وقت اسرائیل کے ظلم کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ کوئی فلسطینی نہیں جانتا کہ اگلے ہی لمحے اسرائیلی پولیس اور صہیونی انتظامیہ راہ چلتے کوئی بھی بہانہ بناکر اس کے ساتھ کیا کچھ کرے یا پھر اچانک کسی بھی وقت اس کے گھر پر ظلم و جبر کی دستک سنائی دے۔

یہ نفسیاتی حربے ہیں، ان کا مقصد فلسطینیوں کو ہر وقت یہ یاد دلانا ہے کہ تم اس اس سرزمین پر اجنبی ہو، اس سرزمین کے مالک ہم ہیں، ہم جیسے چاہیں گے تم کو ویسے ہی رہنا پڑے گا۔ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ فلسطینی تنگ آکر مکمل سرنڈر کر لیں۔

فلسطینیوں کو زچ کرنے کیلئے جہاں دیگر غیر انسانی حربے نہایت ڈھٹائی سے اختیار کیے جاتے ہیں، وہاں ایک یہ بھی ہے کہ کسی فلسطینی کے گھر خوشی کا موقع ہو تو اس کی ٹوہ لگا کر اسرائیلی انتظامیہ خوشی کے گھر کو ماتم کدہ بنانے کیلئے کوئی نہ کوئی ظالمانہ اقدام کرتی ہے۔

گزشتہ دنوں ہم نے ایک  بہادر فلسطینی دلہن کی کہانی شیئر کی تھی، اس سے ملتی جلتی ایک اور کہانی، ظلم کی ایک اور المناک داستان اور فلسطینیوں کی مظلومیت کا ایک اور جیتا جاگتا واقعہ آپ سے شیئر کر رہے ہیں۔ 

تازہ واقعہ حال ہی میں اندورن فلسطین کے ام الفحم شہر میں پیش آیا، جہاں صہیونی حکام نے غفاری جبارین نامی خاندان کا مکان مسمار کردیا۔ یہ مکان ایک ایسے وقت میں مسمار کیا گیا جب اہل خانہ اپنے ایک بیٹے طارق کی شادی کی تقریبات میں مصروف تھے۔

یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، صہیونی انتظامیہ چونکہ فلسطین کے ہر ہر شہری پر نظر رکھتی ہے، اس لیے اسرائیلی بلدیہ کے پاس فلسطینیوں کا سارا ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے اور اس ریکارڈ کو جبر کے حربے استعمال کرنے کیلئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔

غفاری جبارین خاندان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ قابض انتظامیہ کو جونہی اس خاندان میں شادی کا پتا چلا اس نے انہیں فلسطینی قوم کا اجتماعی حوصلہ پست کرنے کا حربہ استعمال کرنے کا پلان بنایا۔

چنانچہ صہیونی انتظامیہ نے ایک ایسے دن کا انتخاب کیا جو ہر روز کی طرح  نہیں ہوتا بلکہ جبارین خاندان کے لیے بڑی خوشی کا موقع تھا۔ یعنی جس دن ان کے بیٹے کی شادی تھی، عین اسی دن بیس سال قبل بنایا گیا ان کا مکان صہیونی انتظامیہ نے آکر پیوند خاک کرکے ان کی خوشیوں کو ماتم میں بدل دیا۔

عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق مسماری کے دوران قابض فورسز نے مسمار شدہ مکان کے ساتھ والے گھر میں موجود خواتین اور بزرگوں کو بھی نہ بخشا اور انہیں بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس ڈاگ یونٹ کے ساتھ ان پر حملہ کیا اور دولہے کے والد اور اس کے کزن کو گرفتار کر لیا۔

دولہے کی کزن تغرید غفاری نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ہم ایک ہفتے سے اپنے کزن طارق کی شادی کی تیاریاں کر رہے تھے اورشادی اسی شام ہونا تھی جس دن کو مکان مسمار کیا گیا۔ ہم صبح بیدار ہوئے تو بلڈوزر اور پولیس فورسز نے مکان اور علاقے پر دھاوا بول دیا اور میرے چچا حسین کے مکان کو گرانے کے لیے کارروائی شروع کردی۔ مکان کا کچھ حصہ زیر تعمیر تھا۔

انہوں نے کہا کہ قابض پولیس فورسز نے گھروں میں خوشی کی کوئی پروا نہ کرتے ہوئے خواتین اور بزرگوں پر کتوں سے حملہ کیا۔

تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق مقبوضہ علاقے کے اندر ایک لاکھ 30 ہزار مکانات کو مسمار کرنے کا خطرہ ہے اور فلسطینیوں کے اندر تعمیراتی منصوبوں کی منظوری میں 8 سال لگتے ہیں جبکہ یہودیوں کے لیے 2.5 سال لگتے ہیں۔

فلسطینی ذرائع کے مطابق اس سال کے آغاز سے قابض حکام نے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے، مسماری کے نوٹس دینے اور مختلف سہولیات کی تعمیر کو روکنے کی پالیسی میں تیزی دکھائی ہے۔ یہ حربے ایسے موقع پر جاری ہیں، جب بھارت میں بی جے پی حکومت بھی مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کو امتیازی حربوں کا سیمبل بنا چکی ہے۔ عالمی ادارے اپنی ذمے داریوں سے فرار کی یہی روش برقرار رکھیں گے تو دنیا کا امن ان حربوں کے زیر اثر متاثر ہوتا رہے گا۔

Related Posts