ٹی ایل پی سے شکست

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 تحریک انصاف حکومت نے یوٹرنز کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان سے پابندی ختم کردی ہے، حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان 31 اکتوبر کو ایک خفیہ معاہدہ عمل میں آیا جس کے تحت حکومت نے کئی روز تک پنجاب میں پرتشدد احتجاج اور معمولات زندگی متاثر کرنے والوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ۔

وزیراعظم عمران خان ، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور وفاقی کابینہ کے وہ ارکان جو ببانگ دہل یہ دعوے کررہے تھے کہ ریاست کی رٹ قائم کی جائیگی اور حکومت ٹی ایل پی کے شرپسندوں کی طرف سے قانون شکنی کو برداشت نہیں کرے گی، وہ اس خفیہ معاہدے کے بعد اپنا منہ چھپائے پھررہے ہیں۔

حکومت نے معاہدے کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیاہے تاہم یہ واضح ہے کہ سیاسی طور پر یہ ایک مہنگا معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں ٹی ایل پی کو اپنا مارچ واپس لینے پر عام معافی ملے گی اور شرپسندی کرنے پر گرفتار کارکنوں کو چھوڑا جاچکا ہے اور امیر سعد رضوی کی رہائی بھی متوقع ہے جبکہ اس سے پہلے بھی جب بھی ٹی ایل پی نے کئی بار پرتشدد کارروائیاں کرکے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ،پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا ،قتل کیا ہے لیکن حکومت اس گروہ کیخلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔

یہ چھٹا موقع تھا جب مذہبی گروہ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے سڑکوں پر نکلا تھا۔ ا س سے پہلے ہر بار وہ کامیابی سے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کو بلاک کرنے میں کامیاب رہے جس سے عوام کو تکلیف پہنچی اور ہر بار شدت پسندوں سے نمٹنے میں حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آئی۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی گروہ ریاست سے زیادہ طاقتور نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود جب ٹی ایل پی کی بات آتی ہے تو ریاست بار بار اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جو چیز اسے استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے ۔

تحریک لبیک اور حقیقی اسلام میں بہت فرق ہے، ایک اسلام وہ ہے جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے اورجس کے فروغ کے لیے وزیر اعظم عمران خان جذبہ حریت سے سرشار ہیں لیکن ٹی ایل پی کا اصل ایجنڈا تشدد اور نفرت کا پرچار ہے، ان کے اپنے من گھڑت نظریات کاقرآن پاک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٹی ایل پی کا پیغام نفرت ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور اس کو پھیلانے کی اجازت دیکر ہم سب قصور وار ٹھہرتے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں طے کرلینا چاہیے کہ ہم مستقبل میں کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں۔ ایک ایسا پاکستان تھا جس کا خاکہ قائداعظم نے 11 اگست کو پہلی آئین ساز اسمبلی کے فلور سے دیا تھا جو ایک لبرل، روشن خیال اور روادار ملک تھا جہاں لوگ آپس میں ہم آہنگی سے رہیں۔

حکومت کی جانب سے بحران سے نمٹنے کے غلط طریقے نے ایک بار پھر اس حکومت کے قول و فعل میں تضاد واضح کردیا ہے۔ ٹی ایل پی کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاگوکہ مظاہرین سامان سمیٹ کر واپس جارہے ہیں لیکن اس کیلئے حکومت نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔

ملک میں خونریزی سے بچنے کے لیے حکومت کی بے تابی کو ہم سمجھ سکتے ہیں لیکن ایک حد سے زیادہ عسکریت پسندانہ نقطہ نظر جو انتہائی تشدد کی کارروائیوں کو دعوت دیتا ہے، اسکو ختم کرنا ہوگا۔

Related Posts