اس وقت ایران کو اسرائیلی جیٹ طیاروں سے زیادہ اعلیٰ ایوانوں اور حساس ترین مقامات تک رسائی پانے والے موساد ایجنٹوں سے حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ ان میں سے کئی ایک کے چہروں سے نقاب اتر چکا اور بے شمار اب بھی آن ڈیوٹی ہیں۔ آیئے ان میں سب سے زیادہ مشہور جاسوس عورت کی حیرت انگیز کہانی آپ سے شیئر کرتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کوئی جنگ اتنی خفیہ لڑی گئی ہو جتنی آج کی مشرقِ وسطیٰ میں جاری ہے، جہاں میزائلوں کی گھن گرج سے کہیں زیادہ ہولناک آوازیں خاموش خنجروں کی ہوتی ہیں۔ ایران، جو خود کو “محورِ مزاحمت” کا علمبردار سمجھتا ہے، آج اپنے عسکری کمانڈ کے قلب میں پڑنے والی دراڑ سے ہل کر رہ گیا ہے۔
کیتھرین پیریز شکدام فرانسیسی نژاد برطانیہ میں مقیم، یہودی پس منظر کی حامل ایک خاتون صحافی ہے، جس نے ایران کے داخلی نظام میں ایسی کاری ضرب لگائی جس کی بازگشت برسوں سنی جائے گی۔ ایک وقت میں ایرانی انقلاب کے مؤقر اداروں اور رہنماؤں کی مہمانِ خصوصی بننے والی یہ عورت بظاہر ایک تبدیل شدہ مسلمان، دراصل اسرائیلی انٹیلی جنس کا ایسا پُراعتماد مہرہ ثابت ہوئی، جس نے ایرانی سیکورٹی ڈھانچے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔
اب جبکہ اسرائیل نے نئے ایرانی آرمی چیف جنرل علی شادمانی جیسے سخت گیر، جنگی منصوبہ ساز اور ایرانی عسکری قیادت کے سرتاج کو عہدہ سنبھالنے کے صرف تین دن بعد تہران کے قلب میں نشانہ بنایا ہے، تو سوال صرف یہ نہیں کہ حملہ کیسے ہوا؟ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ معلومات کس نے دیں؟ رازداری کی کون سی دیوار اندر سے گرا دی گئی؟
شادمانی صرف ایک جنرل نہیں تھے، وہ “خاتم الانبیاء بیس” کے آپریشنل انچارج اور براہِ راست رہبر اعلیٰ کے عسکری مشیر تھے۔ ان کی موت ایک علامتی فتح ہے، نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ مغربی انٹیلی جنس نیٹ ورکس کے لیے بھی، جو برسوں سے ایران میں ایسے ہی کسی لمحے کی تلاش میں تھے۔
یہ ہلاکت ایسے وقت میں ہوئی جب ایران ایک ہمہ جہت جنگی اسٹیج پر موجود ہے، مگر داخلی سلامتی میں نقب، جنگی معلومات کا افشا اور اعلیٰ قیادت کی ہلاکت، یہ سب بتاتے ہیں کہ دشمن صرف سرحدوں پر نہیں، درونِ خانہ بھی موجود ہے۔
کیتھرین شکدام کی کہانی یہاں تمام نہیں ہوتی۔ یہ کہانی اس المیے کا آئینہ ہے کہ جب کسی ریاست کی نظریاتی خوداعتمادی اور سیکورٹی ادارے کسی “مخلص نقاد” اور دشمن کی آنکھ میں فرق کرنا بھول جائیں۔ شکدام نے ایران کے مشرقی دفاتر میں قدم رکھا، مذہبی قائدین سے گفتگو کی، ان کی نظریاتی ہمدردی جیتی اور پھر وہ کچھ دیکھا جو صرف دشمن ہی دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔
اب نہ صرف عسکری قیادت نشانہ بنی ہے بلکہ اعتماد کا وہ قلعہ بھی زمین بوس ہو چکا ہے جس پر ایران کی سیکورٹی حکمت عملی کھڑی تھی۔ یہ کوئی عام قتل نہیں، یہ ایک “ذہنی اور معلوماتی فتح” ہے۔
کیتھرین شکدام کون ہے؟
کیتھرین پیریز شکدام (Catherine Perez-Shakdam) ایک فرانسیسی نژاد برطانوی صحافیہ، تجزیہ نگار اور محققہ ہے، جسے حالیہ برسوں میں ایران اور مشرق وسطیٰ کی سیاست سے متعلق اپنی سرگرمیوں، خاص طور پر ایک مبینہ موساد ایجنٹ کے طور پر کافی شہرت حاصل ہوئی ہے۔
مذہبی پس منظر میں وہ ایک سیکولر یہودی ہے، لیکن کچھ عرصے کے لیے اس نے اسلام قبول کیا۔ پہلے سنی بنی اور ایران کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے شیعہ ہونے کا اعلان کیا۔ قبول اسلام کا ڈھونگ رچانے کے بعد اس نے ایک یمنی نژاد مسلمان سے شادی کی لیکن بعد میں طلاق ہوگئی، کیونکہ اس نے شیعہ ہونے کا اعلان کیا۔
سادہ گلانِ ایران نے اسے ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ اس کی بڑی آؤ بھگت کی۔ یہاں تک کہ اس نے ایران کے اعلیٰ مقامات تک رسائی حاصل کرلی۔ اس نے ایران کے قریب سمجھی جانے والی ویب سائٹس جیسے Press TV، Mehr News Agency، اور Tehran Times کے لیے لکھنا شروع کیا۔ پھر خامنہ ای کے میڈیا نیٹ ورک سے بھی روابط استوار کیے اور ان کے قریب سمجھی جانے لگی۔ یوں وہ آگے بڑھتی رہی۔ حتیٰ کہ سپریم لیڈر کی بھی منظور نظر بن گئی۔ حیرت انگیز طور پر اسے خامنہ ای کی اپنی ویب سائٹ کے لیے مضامین لکھنے کا موقع ملا اور پھر وہ خامنہ ای کے قریبی حلقے تک بھی رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
اس دوران اس نے صحافیہ اور محققہ کے روپ میں نہایت حساس مقامات تک بھی رسائی حاصل کرلی۔ اعلیٰ قیادت کی خفیہ معلومات بھی اس کی دسترس میں آگئی۔ قیادت کی بیویوں سے اس کے اچھے مراسم بن گئے تھے۔ وہ اسے اپنی مومنہ بہن سمجھتی تھیں۔
کام اتارنے کے بعد کیتھرین شکدام ایران کو خیرباد کہہ کر اپنے وطن مالوف لوٹ گئی۔ واپس برطانیہ پہنچ کر اس نے نہ صرف دوبارہ یہودیہ ہونے کا اعلان کیا بلکہ اعتراف کیا کہ اس کا ایران میں موجود ہونا ایک خفیہ مشن کا حصہ تھا اور اس کا اصل ایجنڈا ایران کے اندرونی نظام، بالخصوص مذہبی، سیکورٹی اور اسٹرٹیجک اداروں میں معلومات حاصل کرنا تھا۔
کیتھرین کا یہ انکشاف ایرانی میڈیا اور حکومت میں شدید ہلچل کا باعث بنا۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!
ایرانی سیکورٹی اداروں نے اسے “موساد ایجنٹ” قرار دیا اور اس واقعے کو ایران کی سیکورٹی تاریخ کی ایک بڑی ناکامی کہا گیا، کیونکہ ایک غیر ملکی یہودی عورت ایران کے حساس ترین نظام میں گھسنے میں کامیاب رہی۔ مغربی اور عرب میڈیا نے بھی اس معاملے کو نمایاں طور پر کور کیا۔ اسے “ایران کی سافٹ سیکورٹی” پر کاری ضرب قرار دیا گیا۔ جس کا خمیازہ اب ایران بھگت رہا ہے۔
کیتھرین پیریز شکدام فرانسیسی نژاد یہودی ہے، حالانکہ اس نے برطانیہ میں مستقل رہائش اختیار کر رکھی ہے اور انسٹی ٹیوٹ آف ہنری جیکسنسن سوسائٹی میں تجزیہ نگار کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی ہے۔ وہ ایران میں 2015 سے 2017 کے دوران مختلف مواقع پر گئی اور واپس لوٹنے کے بعد 2017 کے آس پاس ایران سے اپنا تعلق ختم کر لیا لیکن اس کا اصل انکشاف 2021 میں سامنے آیا، جب اس نے اسرائیلی اخبار The Times of Israel میں ایک مضمون لکھا جس میں اس نے انکشاف کیا کہ وہ دراصل یہودی النسل ہے اور ایران میں صحافیہ کی حیثیت سے داخل ہو کر وہاں کے رہنماؤں، انقلابی گارڈز اور مقتدر حلقوں تک غیرمعمولی رسائی حاصل کی۔ یہ مضمون سامنے آنے کے بعد ایرانی حلقوں میں شدید ہنگامہ ہوا اور ایرانی میڈیا نے اعتراف کیا کہ وہ “فریب” کا شکار ہوئے۔
کیتھرین پیریز شکدام نے ایران کا سفر متعدد بار کیا، لیکن سب سے اہم اور خطرناک دورہ 2017ء میں پیش آیا، جب وہ روسی نیوز چینل RT کی نمائندہ بن کر ایران میں داخل ہوئی اور وہاں رہنماؤں تک رسائی حاصل کی، جن میں صدر (بعد میں) ابراہیم رئیسی اور دیگر اعلیٰ سطح کے حکام بھی شامل تھے۔ اس نے مئی 2017 میں رئیسی کا انٹرویو لیا اور اسے ایرانی اپوزیشن اور عالمی سطح پر خود کو قابل اعتماد پیش کرنے کے لیے بے حد قیمتی سمجھا گیا۔ 2018 کے اوائل تک وہ ایران سے واپس ہوگئی، اگرچہ اس کے بعد بھی اس نے ایرانی میڈیا میں بطور “مسلمان صحافی” تحریریں جاری رکھیں، مثلاً Mehr News، Tasnim، اور Khamenei.ir۔ اکتوبر 2021 میں اس نے اسرائیلی اخبار کو لکھے اپنے بلاگز میں حقیقت کا اعتراف کیا کہ ان کا ایران میں قیام ایک خفیہ مشن تھا، اور اس کے بعد انہوں نے اپنی اصلی یہودی شناخت اور سرگرمیوں کو اجاگر کیا۔
ایرانی اعلیٰ عسکری قیادت اور اہم ترین سائنسی شخصیات و تحقیقات مراکز کو اسرائیلی فضائیہ جس کامیابی کے ساتھ نشانہ بنا رہا ہے، اس کے پیچھے کیتھرین جیسے جاسوسوں کی فراہم کردہ معلومات کار فرما ہیں۔