وزیر اعلیٰ کیرالا پنا رائی وجین نے طلاقِ ثلاثہ کو مجرمانہ قرار دینے کے لیے مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیوں صرف مسلمانوں کے اس فعل کو مجرمانہ سمجھا جارہا ہے، جبکہ تمام دیگر مذاہب میں طلاق کو ایک دیوانی (سول) کیس سمجھا جاتا ہے۔
ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مودی سرکار کی جانب سے متعارف کردہ سی اے اے کے مسلم مخالف متنازع قانون شہریت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہاکہ اس قانون کو اپنی ریاست میں نافذ نہیں ہونے دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
شہر قائد میں رواں سال انتہائی سخت گرمی پڑنے کا امکان
انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں مختلف مذہبی پس منظر رکھنے والے افراد شرکت کررہے ہوں گے۔ وجین نے کہا کہ کیا ہم ہر فرد کے لیے ایک مختلف طریقہ کی سزا دے سکتے ہیں؟ ایک شخص جو کسی مذہب پر چلتا ہے، اس کے لیے ایک قانون اور جو دوسرے مذہب پر چلتا ہے اس کے لیے دوسرا قانون ہوسکتا ہے؟ طلاقِ ثلاثہ کے معاملہ میں کیا ہم یہ نہیں دیکھ رہے ہیں؟ طلاق کے کیس میں اگر کوئی مسلمان ملوث ہے تو اسے جیل کی سزا دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص مذہب میں پیدا ہونے کی بنیاد پر کیا شہریت دی جاتی ہے؟ انھوں نے کہا کہ سال 2017ء میں سپریم کورٹ نے طلاقِ ثلاثہ دینے تین بار طلاق طلاق طلاق کہنے کو جرم اور غیردستوری قرار دیا ہے۔ سال 2018ء میں صدر جمہوریہ نے مسلم خواتین کے حقوق اور شادی کے تحفظ پر آرڈیننس جاری کرکے طلاقِ ثلاثہ کو غیرقانونی اور ناقابل عمل قرار دیا۔ اسے ایک ناقابل ضمانت جرم قرار دیا، جس میں جرمانہ اور تین سال کی سزائے قید دی جاسکتی ہے۔
چیف منسٹر کیرالا نے الزام عائد کیا کہ مرکز شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ شہریت کا فیصلہ کرنے مذہب کا استعمال کررہا ہے اور زور دے کر کہا ہے کہ ان کی ریاست میں کسی بھی قیمت پر اس قانون کو نافذ نہیں کیا جائے گا۔