سی پیک ۔۔سست روی ۔۔ملٹری ڈپلومیسی ۔۔ اک نیاولولہ

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان اور چین کی دوستی شہد سے میٹھی، ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے۔ جہاں پاکستان نے پہلے مسلمان ملک کے طور پر آگے بڑھ کر چین کا ہاتھ تھاما وہیں عوامی جمہوریہ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔

یہ محبتوں اور احترام پر مبنی رشتہ کئی دہائیوں سے قائم د وائم ہے۔ پاک چین دوستی اور لازوال رشتے سے  منسلک سی پیک منصوبے کے 10 سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں تقریبات کا انعقاد خوش آئند ہے اور چینی نائب وزیر اعظم ہی لی فنگ کی پاکستان آمد معاشی تناؤ کے ماحول میں خوشگوار ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کیا یہی موروثی سیاست ۔۔۔ کیا یہی ہمارامقدر؟

چین پاکستان کی خوشحالی چاہتا ہے اور سی پیک خوشحالی کا ضامن منصوبہ ہے، چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پورے خطے میں معاشی خوشحالی کو یقینی بنانے کا اقتصادی فریم ورک ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور چین کے درمیان لازوال اسٹرٹیجک تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں اور دونوں ممالک علاقائی خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاک چین دوستی کی ابتدا 1951 سے ہوئی ، پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا، اس سفارتی پیش قدمی کو چین نے کبھی نہیں بھلایا اور باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد دوطرفہ تعلقات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تمام موسموں اور حالات کے اتار چڑھائو کے باوجود پروان چڑھتا رہا ہے۔

ایسے حالات میں جہاں تشدد، جنگ اور دشمنی کا ماحول ہو ایسے میں دو ممالک جو نظریاتی لحاظ سے یکسر مختلف ہوں لیکن ان کی دوستی دنیا بھر کے لئے ایک مثال بن جائے، وہ پاک چین دوستی کہلاتی ہے۔

پاکستان اور چین نہایت قریبی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی تعلقات کی بنا پر دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ یہ تعلقات پچھلی سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ اس تعلق کی جڑیں نہایت گہری اور پائیدار ہیں جو یقیناً دونوں ممالک کی قیادت کی سوجھ بوجھ اور مستقبل کے مشترکہ نقطۂ نظر کی وجہ سے ممکن ہوسکی ہے۔

پاکستان اور چین نے اپنی اس لازوال دوستی کو ایک مضبوط بندھن میں باندھنے کیلئے سی پیک یعنی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں محفوظ ترسیل کرنا ہے۔اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے، گوادر سے کاشغر تک تقریباً 2442 کلومیٹر کا طویل فاصلہ ہے۔

مئی 2013ء کے دوران پاکستان میں چینی وزیراعظم کے دورے کے موقعے پر اُس وقت کے صدر پاکستان اور چینی وزیر اعظم کے درمیان گوادر پورٹ کی حوالگی سمیت پاک چائنہ اقتصادی راہداری سمیت مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔

پاکستان اور چین کے مستقبل سے منسوب اس منصوبے پر ابتدائی عرصے میں تو تندہی سے کام کیا گیا لیکن درمیانی کچھ عرصے میں سی پیک پر کام سست روی شکار رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سی پیک ایک گیم چینجرتھا لیکن پاکستان نے اس کا مکمل فائدہ نہیں اٹھا یا اور بڑی معاشی تبدیلیوں کے مواقع سست روی کا شکار ہوگئے۔

سی پیک کے آغاز پر چین نے کم پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنی بعض صنعتیں پاکستان منتقل کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کےنتیجے میں پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے تھے بلکہ پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوسکتا تھا لیکن پاکستان میں 9صنعتی زون تعمیر نہ ہونے کے باعث ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول نہیں بن سکا۔

چین اس وقت نہ صرف خطے کی بلکہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بننے سے صرف چند قدم دور ہے اور بی آر آئی اور سی پیک منصوبہ چین کی اقتصادی ترقی کا اہم جزو ہے۔ چین پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور دیرینہ دوستی کی وجہ سے ہر طرح کے حالات میں ہمیشہ ثابت قدم رہا ہے اور چینی حکومت نے  حال ہی میں پاکستان پر واجب الادا قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کی بجائے قرض کو رول اوور کرکے پاکستان کو معاشی مسائل کی دلدل میں مزید دھنسنے سے بچالیا ہے۔

سی پیک کے عالمی اثرات اور ثمرات سے قطع نظر اگر ہم پاکستان کیلئے روزگار کے لاکھوں مواقع، بجلی اور دیگر مسائل سے چھٹکارے کے حوالے سے دیکھیں تو یہ منصوبہ پاکستان کیلئے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت سے پوری دنیا واقف ہے۔ چین کو سمندری گزرگاہوں کے استعمال میں امریکا اور اتحادیوں کی طرف سے کئی خطرات کا بھی سامنا ہے اور امریکا چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ کارفرما ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ماضی میں کچھ دشواریوں کے باوجود یہ منصوبہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دوبارہ جاری و ساری ہے۔

متحدہ عرب امارات میں بطور سفیر تعیناتی کے دوران بیرون ممالک کے سرمایہ کار اور ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور کاروبار میں درپیش مشکلات کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن اس وقت خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کا قیام عمل میں لاکر ایک قابل قدر اقدام اٹھایا گیا جس سے چین ہی نہیں بلکہ خلیج اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہوگا اور اس اعتماد کی بحالی میں ہمارے ملک کی عسکری سفارت کاری کا بھی خاطر خواہ عمل دخل ہے۔

مصر سوئز کینال کی مدد سے سالانہ 5 ارب ڈالر سے زیادہ آمدن حاصل کررہا ہے اور اگر چین پاکستان سی پیک منصوبے کے تحت ریلوے لائن اور دیگر امور پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں تو یہ  منصوبہ سوئز کینال اور پانامہ کینال جیسے منصوبوں کو بہت پیچھے چھوڑ دے گا۔

پاکستان کی عالمی تنازعات اور دیگر مفادات کے تناظر میں چین کے بلاک میں شمولیت کاڈکلیئر کئے بغیر دیگر ممالک سے تعلقات استوار کرنا بھی ناگزیر ہے تاہم یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو سی پیک کے دیگر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ایک جان ہوکر کام کرنا ہوگاکیونکہ جب تک تمام ادارے اور سیاسی قوتیں پاکستان کے مفاد کو مد نظر رکھ کر ایک سمت میں آگے نہیں بڑھیں گی پاکستان کو سی پیک کے ثمرات حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا رہے گا۔

سی پیک کے ابتدائی منصوبوں میں دیگر اقدامات کے علاوہ 6 ہزار میگا واٹ بجلی گرڈ میں شامل کرنے کے بعد دوسرے فیز میں سب سے اہم اور کلیدی کردار اسپیشل اکنامک زون کا ہے۔ اسپیشل اکنامک زون کے تناظر میں آج جن معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے وہ نہایت اہم ہیں۔

اسپیشل اکنامک زون کے معاہدے میں انڈسٹریل ورکرز کا تبادلہ، ایکسپورٹ میں اضافہ، کے کے ایچ فیز 2 اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز شامل ہے۔ پاکستان آنے والے چین کے نائب وزیراعظم ہی لیفنگ انتہائی اہم اور بااثر شخصیت ہیں، ہی لیفنگ 60 ارب ڈالر کے چینی منصوبوں کے سربراہ اور سینٹرل کمیونسٹ پارٹی کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔

جیسے پاکستان میں وزیراعظم کے ساتھ پرنسپل سیکریٹری ہوتا ہے اور ہر معاملہ اس کے توسط سے آگے بڑھتا ہے اسی طرح لیفنگ چین کے نائب وزیراعظم ہی نہیں بلکہ چینی صدر کے معتمدِ خاص بھی ہیں۔

پہلے چینی وزیرخارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور اب ہی لیفنگ کا یہ دورہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، اس تمام ترمعاملے میں عسکری سفارتکاری کا کردار بھی نمایاں ہے۔

گزشتہ دو برسوں میں راقم الحروف نے ملاقاتوں میں چینی سفارتکاروں میں مایوسی کا عنصر غالب پایا، چینی سفارتکار پاکستان میں سی پیک کی رفتار کی وجہ سے دلبرداشتہ ہورہے تھے تاہم سی پیک پر دوبارہ تندہی سے کام کی وجہ سے چینی صدر شی جن پنگ کے دورۂ پاکستان کی راہ ہموار ہورہی ہے۔

سی پیک کے دور رس نتائج حاصل کرنے کیلئے ہمیں پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا تاکہ یہ لازوال منصوبہ جلد پایۂ تکمیل تک پہنچ کر پاکستان کی معاشی مشکلات سے نجات کا وسیلہ بنے۔

Related Posts