گزشتہ ماہ 25جون کے روز فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا پاکستان کو 27 میں سے 26 نکات پر کامیابی سے عملدرآمد کے باوجود گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ زیادہ تر پاکستانی عوام اور بیرونی مبصرین پر بھی بجلی بن کر گرا۔ مجھے بھی بڑی حیرت ہوئی جب یہ فیصلہ سننے کو ملا تاہم میں سمجھتا ہوں کہ در حقیقت یہ فیصلہ اتنا بھی غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ بین الاقوامی طاقتیں بشمول امریکا اور بھارت پاکستان کے بہترین مفادات کے برعکس ہم پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا۔
محسوس ایسا ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو کے دوران امریکا کو فوجی آپریشن کیلئے اڈے دینے کے سوال پر جو بالکل نہیں (ایبسولوٹلی ناٹ) کے الفاظ کہے اور واضح کیا کہ پاکستان اپنی زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا، یہ بات امریکی صدر جو بائیڈن کی سماعت پر گراں گزری اور اب ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں جنہوں نے یہ کہہ کر ایف اے ٹی ایف کی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے کردئیے کہ یہ طے کیا جانا ضروری ہے کہ آیا ایف اے ٹی ایف کوئی تکنیکی فورم ہے یا سیاسی؟ یا پھر اسے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
یہاں میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ 27 میں سے 26 مطالبات پر مکمل عمل درآمد کے باوجود پاکستان کو 7 اضافی نکات پر آئندہ 12 ماہ کے اندر اندر عملدرآمد پر مجبور کرنا ایف اے ٹی ایف کی فیصلہ سازی کے طریقۂ کار کو بے نقاب کرتا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا تمام تر انحصار عالمی طاقتوں پر ہے جو اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کیلئے ایف اے ٹی ایف کو شرمناک فیصلوں پر مجبور کرتے ہیں۔
کیا کوئی شخص مجھے یا میرے ہم وطن پاکستانی بھائیوں کو یہ بتا سکتا ہے کہ کوریا اور لیتھوینیا جیسے ممالک جن کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات پر عملدرآمد پاکستان سے مماثلت رکھتا ہے، ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ پر کیوں ہیں جبکہ ہمیں گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا؟ یا پھر کوئی ہمیں یہ بتا دے کہ امریکا پاکستان کے مقابلے میں نسبتاً بد تر پوزیشن پر ہوتے ہوئے بھی وائٹ لسٹ پر کیوں ہے؟ ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی تنظیمیں بھارت کی بلیک مارکیٹ میں یورینیم کی فروخت پر سنجیدگی سے تحقیقات کیوں نہیں کرتیں؟
یہ کوئی خفیہ راز نہیں ہے کہ منی لانڈرنگ کا سب سے زیادہ پیسہ یورپ ، برطانیہ اور امریکی بینکوں میں موجود ہے۔ امریکی فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک (فنکن) کی گزشتہ برس ستمبر 2020ء میں لیک کی گئی دستاویزات سے یہ انکشاف سامنے آچکا ہے کہ مجرموں نے لوٹ مار اور بدعنوانی کا 2 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ پیسہ دنیا کے سب سے بڑے بینکوں کو استعمال کرتے ہوئے ادھر سے ادھر کیا اور یہ 2 ٹریلین ڈالر کی رقم جس کا پتہ 2000 سے لے کر 2017 تک مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹس (ایس اے آرز) کے ذریعے چلایا گیا، دراصل اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
فنکن کی دستاویزات سے مندرجہ ذیل انکشافات سامنے آئے:
ایچ ایس بی سی نے دھوکے بازوں کو دنیا بھر سے چوری کی گئی لاکھوں ڈالرز کی رقم دنیا بھر میں ادھر سے ادھر کرنے کی اجازت دی ، حالانکہ انہیں امریکی تفتیش کاروں سے یہ علم ہوچکا تھا کہ یہ اسکیم ایک فراڈ سے زیادہ کچھ نہ تھی۔
جے پی مارگن نے ایک کمپنی کو لندن کے ایک اکاؤنٹ سے یہ جانے بغیر کہ بھاری بھرکم رقم کس کی ملکیت تھی، 1 ارب ڈالر سے زائد کی رقم منتقل کرنے کی اجازت د ےدی۔ بعد میں بینک کو پتہ چلا کہ مذکورہ کمپنی کا مالک ایف بی آئی کے 10 انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ممکنہ طور پر شامل تھا۔
یہ ثبوت بھی ملا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ایک قریبی دوست نے لندن کے بارکلیز بینک کا استعمال کرتے ہوئے ان پابندیوں سے جان چھڑا لی جو انہیں مغرب کی مالیاتی خدمات کے استعمال سے روک رہی تھیں۔ نقد رقم میں سے کچھ فنی نمونوں (آرٹ) کی خریداری پر بھی خرچ کی گئی۔
ایک خاتون کے شوہر نے برطانیہ کی حکمراں قدامت پرست (کنزرویٹو) پارٹی کو 1.7 ملین پاؤنڈ عطیہ کردئیے جس کی رقم روسی اولیگارچ سے آئی تھی جس کا گہرا تعلق روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ثابت ہوتا ہے۔
فنکن کے انٹیلی جنس ڈویژن میں برطانیہ کو ایک خطرے سے بھرپور خطہ سمجھا جاتا ہے جس کا موازنہ سائپرس سے کیا جاتا ہے کیونکہ یو کے کی رجسٹر کی گئی کمپنیاں ایس اے آرز میں شامل ہیں۔ فنکن کی فائلز میں 3 ہزار سے زائد برطانوی کمپنیاں نامزد کی گئی ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
چیلسی کے مالک رومن ابرامووچ نے ایک آف شور کمپنی کے ذریعے ایسے فٹ بالرز میں سرمایہ کاری کی جن کی ملکیت ان کے اپنے کلب کی نہیں تھی۔
متحدہ عرب امارات کا مرکزی بینک ایک مقامی فرم کے متعلق جاری کی گئی وارننگز پر مثبت ردِ عمل نہ دے سکا جو عائد کی گئی پابندیوں پر قابو پانے کیلئے ایران کی مدد میں ملوث تھی۔
ڈیوٹشے بینک نے منی لانڈرنگ کرنے والوں کا میل کچیل سے بھرپور پیسہ منظم جرائم، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کیلئے منتقل ہونے دیا۔
اسٹینڈرڈ چارٹرڈ نے عرب بینک کیلئے ایک عشرے سے زائد وقت تک رقم منتقل کرنے کا عمل جاری رکھا جبکہ صارفین کے اکاؤنٹس اردن کے ایک بینک میں پائے گئے جو دہشت گردی کی مالی معانت میں ملوث تھا۔
فنکن نے 44 بھارتی بینکوں اور مالیاتی اداروں کا سراغ لگایا ہے جہاں سینکڑوں کے حساب سے مشکوک لین دین ہوتا تھا جسے ٹاپ سیکرٹ مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹس میں شامل کیا جاچکا ہے۔
فنکن دستاویزات سے سامنے آنے والے مندرجہ بالا انکشافات کی روشنی میں امریکا، بھارت، جرمنی اور عرب عمارات پاکستان کے مقابلے میں ایک مافیا دکھائی دیتے ہیں لیکن معنی خیز بات یہ ہے کہ یہ تمام ممالک ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ پر ہیں جو سیدھا سادہ ذہن رکھنے والے مبصرین کے ذہنوں پر ہتھوڑے برسانے کیلئے کافی ہے۔
تاہم بھارتی مالیاتی اداروں کے متعلق کیے گئے انکشافات یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے کس حد تک پاکستان ، کشمیر اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے میں تعاون کیا ؟ کیونکہ بھارتی مسلح افواج کے سابقہ اور موجودہ افسران گزشتہ 2 عشروں کے دوران ایسی ہی سرگرمیوں کا اعتراف کرچکے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے ایسے حقائق پر شترمرغ کی طرح ریت میں سر کیوں چھپا رکھا ہے جو بھارت کے مالیاتی نظام پر بڑے سوالات کھڑے کر دیتے ہیں؟
دوسری جانب پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کا ردِ عمل دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے، خاص طور پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ موجودہ پی ٹی آئی حکومت کو پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نہ نکلنے پر موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دو وہی پارٹیاں ہیں جنہوں نے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پورے کرنے کیلئے صفر قانون سازی کی جبکہ یہ پارٹیاں 2008ء سے لے کر 2018 تک دھوکے کے عشرے میں پاکستان پر حکمران تھیں۔ آئیں اور حقیقت کا سامنا کریں۔ منی لانڈرنگ کے خلاف سخت قانون سازی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مفاد میں کبھی تھی ہی نہیں کیونکہ ان کے اپنے بہت سے سیاسی رہنما اس جرم کے مرتکب ہوئے اور آج بھی ہماری عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ 3 سالوں میں ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پورے کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے تاکہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر کہیں بلیک لسٹ نہ ہوجائے جبکہ اپوزیشن انتہائی بے شرمی سے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی جو ملکی مفاد کیلئے کی جارہی تھی، بدعنوانی کے بے شمار کیسز میں حکومت سے سازباز کیلئے استعمال کررہی ہے تاکہ ان کے کرپٹ لیڈروں کو فائدہ ہوسکے۔
سن 2018ء کے عام انتخابات سے قبل دئیے گئے انٹرویو میں ن لیگ کے سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہ نکال پانے پر اپنی غلطی تسلیم کی اور اس وقت کی نگراں حکومت پر الزام تراشی سے گریز کیا۔ مزید برآں سابق وفاقی وزیر احسن اقبال جو ن لیگ کے ارسطو بنے ہوئے ہیں، انہوں نے مارچ 2018ء میں اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 2008ء میں بلیک لسٹ کردیا تھا ، پھر 2010 میں گرے لسٹ میں رکھا اور پھر 2012ء میں دوبارہ بلیک لسٹ کردیا۔ کہنا یہ مقصود تھا کہ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ہوا۔ احسن اقبال نے یہ بھی فرمایا کہ ن لیگی دورِ حکومت میں سن 2014ء میں پاکستان بلیک لسٹ سے نکل کر گرے لسٹ میں آیا اور پھر 2015ء میں وائٹ لسٹ ہوگیا لیکن 2018ء میں پاکستان کو پھر گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ جب پیپلز پارٹی اور ن لیگی حکومتوں نے ایف اے ٹی ایف کے 27 نکات پر عملدرآمد کیلئے 2008ء سے لے کر 2018ء تک کوئی قانون سازی ہی نہیں کی تو پاکستان 2015ء سے لے کر 2018ء تک وائٹ لسٹ میں کیسے آیا؟ کیا یہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے اور دہشت گردی کے خلاف قبائلی علاقہ جات میں کیے گئے آپریشن کے بعد 2015کے نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کیلئے عالمی سپر طاقتوں کی طرف سے کوئی انعام تھا؟اگر یہ مان لیا جائے تو ہم نے جو سبق سیکھا وہ یہ ہے کہ اگر پاکستان امریکا کو فوجی اڈے دے دے تو اسے ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں شامل کر لیا جائے گا۔
دراصل ایف اے ٹی ایف کایہ فیصلہ کہ پاکستان کو گرے لسٹ پر ہی برقرار رکھاجائے، ہماری عدلیہ کے نام ایک پیغام ہے جو شریفوں اور زرداریوں جیسے منی لانڈرنگ کے ملزمان کو ضمانت عطا کردیتی ہے اور کیسز کے درست فیصلے نہیں کرتی۔ مزید برآں ایف اے ٹی ایف کے فیصلے کے باعث پاکستان امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو چھوڑ کر چین کے کیمپ میں شامل ہوگیا ہے جو ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ چین کا ساتھ چھوڑ دیں اور ان کے ساتھ مل جائیں۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے میں وزیرِ اعظم عمران خان کو چین کا ساتھ دینے پر موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ اگر ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ہم امریکا، بھارت اور مغربی ممالک کی چاپلوسی کریں تو پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی شامل رہنا چاہئے، بجائے اس کے کہ ہم اپنا قومی مفاد ہمیشہ بیچتے پھریں۔
قوم کے نظریاتی جد امجد، عظیم مفکر اور فلسفی شاعر علامہ محمد اقبال نے ایسی ہی صورتحال کے متعلق بے حد خوبصورت بات کہی تھی:
اے طائر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
کہنا صرف اتنا مقصود ہے کہ اگر معیشت کو سہارا دینے کیلئے ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں آنا ضروری ہے تو عزتِ نفس برقرار رکھنے کیلئے گرے لسٹ پر برقرار رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہوچکا ہے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کا کھل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔