دنیا کے مظلوم ترین شہر غزہ پر اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری اور سفاکانہ جارحیت کو سو دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ درمیان میں عارضی جنگ بندی کے چند دنوں کے مختصر وقفے کے علاوہ اس تمام عرصے میں اسرائیل نے امریکا، برطانیہ، فرانس سمیت اپنے تمام عالمی طاغوتی سرپرستوں کی مکمل اعانت اور حمایت سے غزہ کو فضا، زمین اور سمندر سے یکطرفہ طور پر آتش، آہن اور ہلاکت خیز بارود کا نشانہ بنائے رکھا ہے اور وحشیت، بہیمیت، بے دردی، سفاکی، بے رحمی اور درندگی کا یہ سلسلہ اب بھی پوری قوت سے پوری دنیا کے دیکھتے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس عرصے میں مسلسل حملوں سے اسرائیل نے غزہ کو مکمل طور پر تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزہ شہر کسی بپھرے ہوئے خونی درندے کے چنگل میں آگیا ہے، جو اسے بری طرح نوچ کھسوٹ رہا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اس درندے کے دائیں بائیں بھی بظاہر انسانیت کا چولا پہنے درندے ہی کھڑے ہیں، جو نہایت ڈھٹائی اور سفاکی سے اس درندے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور کسی کو بھی درندے کے چنگل میں پھنسے غزہ کی مدد کیلئے آگے بڑھنے نہیں دے رہے۔
اسرائیل نے حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو ختم کرنے کی آڑ میں اپنی وحشیانہ کارروائیوں میں غزہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، بائیس لاکھ سے زائد کی گنجان آبادی کے اس شہر میں اب کوئی عمارت، مارکیٹ، مسجد، چرچ، تعلیمی ادارہ، اسپتال اور سڑک محفوظ نہیں رہی۔ لاکھوں انسان کھلے آسمان تلے باری میں لگ کر اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں، جنہیں خون آشام درندہ پوری طاقت اور بے خوفی سے ایک ایک کرکے موت کی نیند سلانے میں مصروف ہے۔
وحشیت و سفاکیت کے ان سو دنوں میں دنیا کے اسٹیج پر بڑے بڑے ناٹک دیکھنے میں آئے، وہ تمام کردار بری طرح بے نقاب اور پوری طرح ننگے ہوگئے، جو سوتے اور جاگتے ہمہ وقت انسانیت کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے اور اسی بنیاد پر دنیا میں دوسروں کو مطعون اور ملزم ٹھہراتے ہیں۔ وہ ادارے بھی ناکارہ اور بے کار ثابت ہوئے جن کا مقصد وجود ہی جنگوں کو روکنا اور دنیا میں ہر صورت قیام امن ہے۔
منافقت تو دیکھئے کہ انسانیت کے بڑے بڑے علمبردار پچھلے سو دنوں سے زائد عرصے سے انسانیت کے مقابلے میں درندگی، بہیمیت اور وحشیت کے پہلو میں کھڑے ہیں اور جنگیں روکنے کے ذمے دار ادارے جنگ کی آگ بھڑکانے والوں کے آگے گنگ، مہر بہ لب دم ہلاتے دکھائی دیتے ہیں۔
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، اس سازگار ماحول نے اسرائیل کو کھلا موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ بائیس لاکھ کی آبادی کا صفایا کرکے غزہ کی سرزمین کو بھی اسی طرح ہتھیالے، جس طرح دنیا بھر سے آنے والے قابضین کے ٹولے نے ارض مقدس کی باقی سرزمین کو فرزندان زمین سے چھینا اور ہتھیالیا ہے۔
ڈھٹائی اور جسارت کی حد ہے کہ باہر سے آنے والے قابض زمین کے مالکوں کو ان کے گھروں اور جائیدادوں سے طاقت کے زور پر نکال رہے ہیں اور زمین کے مالک پلٹ کر اس ظلم اور نا انصافی کیخلاف مزاحمت کریں تو وہی دہشت گرد ٹھہرائے جاتے ہیں۔
اسرائیل قبضے کی اسی پالیسی پر عمل کا مجسم نمونہ ہے، حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمت کار اپنی سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں، مگر اسرائیل کا اصرار ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں، ان کے خاتمے تک جنگ یعنی یکطرفہ وحشیت اور جارحیت جاری رہے گی۔ غاصب اسرائیل کے اس موقف سے نہ صرف امریکا سمیت اس کے تمام عالمی سرپرست متفق ہیں، بلکہ شرمناک امر یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بہت سے ممالک بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔
سو دن سے زائد عرصے سے جاری اسرائیل کی سفاکیت کے مقابلے میں اہل فلسطین کی کامیاب مزاحمت نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطین کا وجود مٹانے کا اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ اب تک کی کامیاب مزاحمت سے فلسطینی مجاہدین نے ارض مقدس کی حفاظت اور دفاع کا اپنا فرض نہایت بہادری، جرات اور شجاعت سے نبھایا ہے، اب عالم اسلام کی ذمے داری شروع ہوتی ہے، کیا امت مسلمہ کو اپنی ذمے داریوں اور فرض کا احساس ہے؟
وقت آگیا ہے کہ مسلم امہ اب کھل کر حماس اور دیگر فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے کا امریکی اور اسرائیلی بیانیہ مسترد کردے اور واضح کرے کہ دہشت گرد اپنی سرزمین کا دفاع کرنے والے فلسطینی مجاہدین نہیں، بلکہ غاصب اسرائیل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی جانباز اپنی بساط سے بڑھ کر ارض مقدس کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس مشکل ترین وقت میں مسلم امہ کی طرف سے یہ لفظی اور اخلاقی حمایت بھی ان کیلئے بڑی ڈھارس اور مدد ثابت ہوسکتی ہے۔ غزہ کے مجاہدین دفاعِ قدس کی آخری چٹان ہیں، خدا نخواستہ یہ چٹان توڑ دی گئی تو قدس کا وجود ہی نہیں، مسلم دنیا کا موجودہ جغرافیہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مسلم امہ دفاعِ قدس کی آخری چٹان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی ہو، ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔