امیر المؤمنین حضرت علی ابنِ ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امیر المؤمنین حضرت علی ابنِ ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ
امیر المؤمنین حضرت علی ابنِ ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام صحابہ کرام میں سب سے افضل اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ آپ کا تعلق اہلِ بیتِ اطہار سے ہے۔ آپ کو اسد اللہ کا لقب عطا کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ کی مختلف احادیث اور اقوال سے آپ کا رتبہ معلوم کیاجاسکتا ہے۔

خلفائے راشدین میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام حضرت عثمان ابن عفان کے بعد چوتھا ہے۔ ہر سال 21 رمضان المبارک کے روز حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یومِ شہادت منایا جاتا ہے۔ آئیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لیتے ہیں۔

جنگ و جدل اور بہادری

سب سے پہلی جنگ جسے جنگِ فرقان کہا گیا، وہ غزوۂ بدر ہے جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہ 25 برس کی عمر میں شریک ہوئے۔جنگ سے قبل رسول اللہ ﷺ نے باقاعدہ نشاندہی کرکے بتایا تھا کہ کون سے کافر کو کس جگہ قتل کیا جائے گا جسے نبئ آخر الزمان کا معجزہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

اگلے روز تمام کفار ٹھیک اسی جگہ مارے گئے جس جس جگہ کی حضور ﷺ نے نشاندہی فرمائی تھی۔ حضرت علی غزوۂ بدر کے علاوہ احد، خزوۂ خندق، غزوۂ خیبر اور غزوۂ حنین بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ لڑے اور اپنی بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ کفار کے دلوں پر لرزہ طاری ہوگیا۔

بہت سی لڑائیوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلامی لشکر کی سپہ سالاری کے فرائض سنبھالے اور بے حد بہادری اور جانفشانی سے دشمنوں کو زیر کیا۔ غزوۂ خندق کے دوران عمرو نامی کافر کا سر کاٹنے کیلئے حضرت علی اس کے سینے پر جا بیٹھے۔

کافر شخص نے حضرت علی کے چہرۂ مبارک پر تھوکا جس پر آپ نے اسے قتل کرنے کا ارادہ ترک کردیا اور اس کے سینے سے اتر گئے۔ خیال یہ تھا کہ دشمن کو اللہ کی راہ میں قتل کرنا ہے، ذاتی دشمنی نکالنے کی غرض سے نہیں۔

علم و فضل اور سیرت 

اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی پر نظر ڈالی جائے تو قرآن و حدیث پر عمل کے سوا آپ نے زندگی میں کسی اور چیز کو اہمیت نہیں دی۔ عرب میں رواج تھا کہ دشمن کو قتل کرکے اس کی لاش کی بے حرمتی کی جاتی تھی، آپ نے ہمیشہ اس عمل سے اجتناب فرمایا۔

اسلام جنگ کرنے والے سپہ سالاروں اور سپاہیوں کو دشمن کی خواتین اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھانے کا درس دیتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی کسی خاتون یا بچے پر ہاتھ نہیں اٹھایا، نہ کسی کی بے جا توہین کی اور نہ ہی اسلام کے اصولوں کی کبھی خلاف ورزی کی۔

دینی و دنیوی علم کی بات کی جائے تو تمام تر صحابہ کرام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ حضور ﷺ فرماتے تھے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی میرا دروازہ ہے۔امانتداری، معاملہ فہمی اور احساسِ ذمہ داری آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

جانثاری اور عجز و انکسار 

نبئ آخر الزمان ﷺ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو مختلف کاموں کا حکم دیتے تو حضرت علی اس سے کبھی انکار نہ کرتے بلکہ خوشی سے حکم بجا لاتے۔ مختلف خطوط، عہد نامے اور معاہدے تحریر کرنا، وحی کی کتابت ، تبلیغ اور جان کی پروا نہ کرتے ہوئے جہاد کیلئے ہمیشہ تیار رہنا حضرت علی کی خاص صفت تھی۔ 

مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے کفار کی امانتیں حضرت علی کے سپرد کیں اور روانہ ہوگئے۔ کمسن حضرت علی جان کی پروا کیے بغیر آپ ﷺ کے بستر پر سوئے  اور کفار کی امانتیں ان کے سپرد بھی کیں۔ 

احادیث میں حضرت علی کا ذکر

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے سب سے بہترین فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ انہیں مجھ سے وہ تعلق ہے جو روح کو جسم سے یا پھر سر کو بدن سے ہوتا ہے۔

مدینہ منورہ میں جب رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنایا تو اپنے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دنیا و آخرت کا بھائی قرار دیا۔ یہ صرف چند ایک فضائل ہیں جبکہ حضرت علی کے فضائل و مناقب پر طویل کتب تحریر کی جاسکتی ہیں۔

اہلِ بیت میں رتبہ اور شہادت 

مسلمانوں کیلئے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی محبوب صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراء کے شوہر اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے والد ہیں، آگے چل کر کربلا کے میدان میں حضرت حسین نے جو اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی دی، وہ حضرت علی اور جنابِ فاطمۃ الزہراء جیسے والدین کی ہی تربیت کا نتیجہ قرار دی جاسکتی ہے۔

خلفائے راشدین میں سے تیسرے حضرت عثمان ابن عفان تھے جنہیں قتل کیا گیا، سن 656ء میں صحابہ نے حضرت علی کو چوتھا خلیفہ منتخب کیا۔ ابھی خلافت کو کم و بیش 5 برس ہی مکمل ہوئے تھے کہ 661ء میں کوفہ کی جامع مسجد میں نماز کے دوران آپ کو شہید کیا گیا۔

روایات کے مطابق آپ پر قاتلانہ حملہ ایک خارجی نے کیا جس کا نام عبدالرحمان بن ملجم بتایا جاتا ہے۔ یہ 19 رمضان المبارک کی تاریخ تھی اور 2 روز بعد آپ خالقِ حقیقی سے جاملے۔آج بھی تمام مسلمان آپ کو بے حد عزت اور احترام سے یاد کرتے ہیں۔ 

 

Related Posts