جب تاریخ اپنے اہم ترین موڑ پر پہنچتی ہے تو بعض افراد ایسے فیصلے اور کارنامے سرانجام دیتے ہیں جو نسلوں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ 28 مئی 1998 کو پاکستان نے جب چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کیے، تو یہ صرف تکنیکی کامیابی نہیں تھی بلکہ قومی خودداری اور آزادی کی گونج تھی اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس گونج کا مرکزی محرک تھے ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان محض ایک نیوکلیئر فزسسٹ نہیں تھے وہ ایک عہد، ایک وژن اور ایک قومی ذمہ داری کا نام تھے۔ انہوں نے اپنی آرام دہ زندگی کو ترک کرکے، مغرب کی چمکتی دنیا سے منہ موڑ کر، پاکستان کے لیے وہ سب کچھ چنا جسے بیشتر لوگ “ناممکن” سمجھتے تھے۔
انہوں نے اپنی علمی قابلیت کو صرف سائنسی کامیابی کے لیے نہیں، بلکہ پاکستان کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ ان کے نزدیک ایٹمی ہتھیار صرف جنگی سامان نہیں، بلکہ ایک مضبوط دفاعی نظریہ تھے۔
یومِ تکبیر وہ دن ہے جب دنیا کو یہ احساس ہوا کہ پاکستان صرف نعرے نہیں لگاتا، بلکہ اپنی خودمختاری کے لیے عملی اقدامات بھی کرتا ہے۔ چاغی میں جب زمین لرزی، تو درحقیقت دشمنوں کے ارادے لرز گئے۔ اور اس لمحے کا معمار، وہ سائنسدان تھا جس نے اپنے خون، محنت اور ایمان سے اس دن کو ممکن بنایا۔
1998 میں عالمی قوتیں پاکستان کو دباؤ، دھمکی اور لالچ کے ذریعے روکنا چاہتی تھیں لیکن ڈاکٹر خان کا موقف دو ٹوک تھا کہ اگر دشمن کے پاس تلوار ہے، تو ہمیں ڈھال کے ساتھ ساتھ تلوار بھی چاہیے۔
انہوں نے نہ صرف ایٹمی پروگرام کی قیادت کی بلکہ ایک مضبوط ٹیم کی رہنمائی بھی کی، جس نے دن رات کام کر کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمیشہ کہتے تھے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے، جارحانہ نہیں۔ ان کے نزدیک طاقت صرف طاقتور ہونے کے لیے نہیں، بلکہ امن کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اب ہم میں نہیں رہے، مگر ان کا خواب، ان کی کاوش اور ان کا عزم آج بھی پاکستان کی شہ رگ کی طرح متحرک ہے۔ یومِ تکبیر صرف ایک دن نہیں، یہ یاد دہانی ہے اس قربانی، جدوجہد اور غیرت کی جو ایک شخص نے پوری قوم کے وقار کے لیے دی۔
اس دن ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے قومی ہیروز اور محسنوں کو یاد رکھیں بلکہ ان کے مشن کو محفوظ اور مستحکم بنائیں۔