سوشل میڈیا مہم کا کامیاب طریقہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اگر ہم عین آخری وقت پر طویل پیشہ ورانہ یا ذاتی تسکین کیلئے کامیابی سے کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس ہمیشہ سوشل میڈیا مہم کا کامیاب طریقہ موجود ہوتا ہے جسے اینڈ لیس اپروچ کہتے ہیں جس کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

بے شک موجودہ دنیا ایک مکمل ورچؤل عہد میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور تمام تر ارتکازِ توجہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے شعبے پر ہے چاہے وہ سیاست، مذہب، کاروباریا کوئی بھی میدان ہو۔ہم مکمل طور پر مثبت رویے کی تعریفوں سے واقف ہیں  جو کورونا وائرس کی وباء کے باعث منفی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا کیمپین میں حالیہ تبدیلیوں کے تجزئیے سے عام انسان کے ذہن میں مختلف سوالات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ منفی تاثر تیزی سے مثبت میں تبدیل ہوجاتا ہے جو (کورونا سے) متاثرہ علاقوں میں بھی مرضی کے حالات لا سکتا ہے۔ منفی پراپیگنڈے سے ہمیشہ فردِواحد اور کمپنیوں یا تنظیموں کیلئے کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ ان کیلئے منفی پہلوؤں کو اجاگر کون کرتا ہے؟ تو سچ کچھ ہی وقت قبل عیاں ہوا کہ میڈیا سیلز اور طے شدہ معاوضہ پانے والے سوشل میڈیا ماہرین ہی تمام کہانیوں کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مثبت رویے نے ہمیشہ منفی سے معاونت حاصل کی اور یہ سب کچھ کورونا سے کہیں پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے۔

حال ہی میں ایک نعرے نے سوشل میڈیا کی توجہ حاصل کی جس میں بہت سی دوستانہ پوسٹس استعمال ہوئیں جو پاکستان بھر میں تقریباً ایک ہفتے تک خبروں میں شامل رہیں، ہمارے میمز بنانے والے افراد کبھی اپنے کام میں سست روی کا شکار نہیں ہوتے، اور اس نعرے  یعنی اپنی طرف کھینچنے والے الفاظ سے متعلق میمز پاکستان کے تقریباً ہر اسمارٹ فون تک جا پہنچیں کیونکہ جس برانڈ سے متعلق یہ بنائی گئیں وہ ایک مذہبی شخصیت سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے لوگوں نے رمضان المبارک ہونے کے باعث بھی اس میں بے حد دلچسپی لی۔یہاں ہمیں دو بار سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ نعرہ یا قصہ عوامی توجہ حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟ تو پتہ یہ چلتا ہے کہ اس کی 3 وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ نعرے کے پیچھے ایک مذہبی شخصیت تھی، دوسری وجہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اور تیسری اور بڑی وجہ منفی نعرے یعنی اپنی طرف توجہ دلانے والے منفی الفاظ تھے۔

آئیے تمام تر وجوہات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اگر ہم پہلی وجہ پر توجہ مرکوز کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی مخصوص مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی عالم کیلئے کاروباری مارکیٹ کا احاطہ کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ دیگر مسلک کے لوگ ہمیشہ اس کے خلاف ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ یعنی رمضان المبارک کے بابرکت مہینے پر غور کیا جائے تو یہ وہ اہم ترین وقت تھا جب کسی بھی ایسی برانڈ کو فروغ دیا جاسکتا تھا جس کا تعلق مذہب سے ہو جبکہ تیسری وجہ یعنی اپنی طرف کھینچنے والے الفاظ ایک حساس معاملہ ہوسکتے ہیں کیونکہ اسے غلط اور بے حیائی پر مبنی رنگ دیا جاسکتا ہے۔

وائرل ہونے والے نعرے کی کہانی کو ایک منفی طریقۂ کار سے شروع کیا گیا اور پھر اسے ایک مثبت ہمدردی کے تاثر کے طور پر اجاگر کیا گیا جس کا فائدہ برانڈ کو پہنچا، کیونکہ اس تمام تر داستان کے 1 ہفتے بعد عوام کو ایک وضاحتی پیغام جاری کیا گیا کہ مذہبی برانڈ کسی بھی قسم کے نعرے کو تخلیق نہیں کرتی اور یہ کہ وائرل کی گئی کہانی جعلی تھی۔ اس عوامی پیغام کے بعد کچھ تصاویر بھی وائرل کی گئیں جو نیک مقصد کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ وہ مذہبی شخصیت دراصل ضرورت مند افراد میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرتی نظر آئی۔ اس تمام تر کارروائی کو سمجھنے کیلئے ہمیں ایک ریاضیاتی فارمولا اپنانا ہوگا جو تفریق یعنی نفی اور نفی کو جمع کرنے کا نتیجہ مثبت بتاتا ہے، اور یہی اس سارے کھیل کا بنیادی مقصد ہے۔ سب سے پہلے ایک منفی تصویر پیش کی گئی جس نے عوام کی منفی توجہ حاصل کی یعنی لوگوں میں تشویش پھیل گئی اور یہ تشویش ملک کے ہر گھر تک جا پہنچی۔ پھر اسی منفی تاثر کو ایک مثبت پیغام کو فروغ دے کر اپنی مرضی کا مقصد حاصل کر لیا گیا۔ نتیجہ بہرحال مثبت سمت میں برآمد ہوا۔

اب کچھ سوالات ضرور ایسے ہیں جو کسی بھی غور و فکر کرنے والے کے ذہن میں ضرور پیدا ہوں گے کہ کیا یہ منفی نعرے کی بنیاد پر شروع کی جانے والی سوشل میڈیا مہم انہوں نے خود شروع کی؟ یا انہوں نے منفی پروپیگنڈہ پھیلنے کے باوجود اس سے شہرت حاصل کرنے کی غرض سے فائدہ اٹھایا؟ جو بھی ہو، لیکن مرکزی خیال یہ ہے کہ ہمارے سامنے مخصوص ٹارگیٹید ناظرین و سامعین ہیں جنہیں نہ ختم ہونے والی اپروچ یا طریقۂ کار سے اپنی طرف راغب کیا جاسکتا ہے، جس کا ہمیں سیاسی اعتبار سے بہت تجربہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر اگر انتخابات جیتنے ہوں تو کسی سیاستدان کی موت اس کا ایک جذباتی وسیلہ بن سکتی ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ اگر ہم دی اینڈ لیس اپروچ (نہ ختم ہونے والا طریقۂ کار)کے انگریزی الفاظ کا ایک ایک ابتدائی حرف لے کر ٹی ای اے کو مخفف کی بجائے ایک لفظ سمجھیں تو نتیجہ چائے کا ایک کپ نکلے گا جو ہمارے لیے ہر طرح کی سردردی سے نجات اور ہر قسم کے سکون کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔

Related Posts