پانی کا تنازعہ، صوبوں میں تناؤ بڑھ گیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک میں پانی کی کمی بڑھ کر 17فیصد ہوگئی ہے جس کے بعد سندھ اور پنجاب میں تنائو بڑھ گیا ہے، دریائے سندھ میں پانی ضائع ہونے اور کوٹری سے نیچے پانی چھوڑنے پردونوں صوبوں میں سخت اختلافات ہوگئے ہیں۔ چیئرمین ارسا وپنجاب کے رکن رائو ارشاد علی خان کاکہنا ہے کہ یکم اپریل سے 20 مئی تک ارسا کو 10 فیصد جبکہ ملک کو پانی کی 20 فیصد کمی کا سامنا رہا تاہم ارسا نے پانی کی کمی پر اپنا تخمینہ اب 17 فیصد کرلیا ہے جو کہ 10 جون تک ہے۔

نواب یوسف تالپور کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے پانی کے اجلاس میں سندھ اور پنجاب کے درمیان واٹر اپروکسی منٹ معاہدہ 1991 کے پیرا۔2 پر عمل درآمد نا ہونے اور تونسہ اور کوٹری کے درمیان وافر مقدار میں پانی ضائع ہونے پر گرما گرم بحث ہوئی ہے۔ مجلسِ قائمہ کوبتایا گیا کہ پنجاب میں نہری نظام پورے ملک کے نہری نظام میں سب سے بڑا ہےلیکن کل ضائع شدہ پانی کاصرف 15فیصد پانی پنجاب میں ضائع ہوتا ہے جبکہ پانی کے ضیاع کی روک تھام کے لیے انسپکٹرز تعینات کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی۔

24 مئی کو ارسا کی رپورٹ کے مطابق پریشان کن صورتحال یہ ہے کہ پانی کی بڑھتی قلت کے دوران تربیلا ڈیم میں پانی اپنی کم ترین سطح پر یعنی 1402 فٹ پر آ گیا ہے اور یہ ڈیڈ لیول یعنی 1400فٹ کے قریب ترین ہے۔ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ صرف 0اعشاریہ 115ملین ایکڑ فٹ رہ گیا ہے جس سے صوبوں کی پانی کی دو دن کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔

منگلا ڈیم میں بھی صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ اس ڈیم میں ڈیڈ لیول 1095فٹ ہے جبکہ یہاں پانی کی سطح گر کر 1111اعشاریہ 30؍ فٹ رہ گئی ہے۔ اگر پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ گئی تو صوبوں کو روزانہ 38ہزار کیوسک پانی کی فراہمی منگلا کے اسپل ویز کی ممکنہ گنجائش دیکھتے ہوئے ممکن نہیں ہوگی۔

پنجاب دریائے سندھ سے 22 ہزار جبکہ منگلا سے 50؍ ہزار کیوسک پانی روزانہ حاصل کر رہا ہے۔ سندھ دریائے سندھ سے 80 ہزار جبکہ منگلا سے 8 ہزار کیوسک روزانہ حاصل کر رہا ہے۔ سندھ اور پنجاب کی جانب سے اپنی زرعی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تربیلا اور منگلا سے بڑی مقدار میں پانی حاصل کرنے کی وجہ سے امکان ہے کہ تربیلا دو دن میں اپنے ڈیڈ لیول تک پہنچ جائے گا جبکہ منگلا بھی آنے والے دنوں میں 1050 فٹ کی آخری حد تک پہنچ جائے گا۔

پنجاب کا کہنا ہے کہ تونسہ سے کوٹری تک پانی کا نقصان 30فیصد تک ہونا چاہئے لیکن یہ 39فیصد ہو رہا ہے حالانکہ 30 فیصد بھی بہت بڑی مقدار ہے، اس طرح دیکھا جائے تو 1.2ملین ایکڑ فٹ پانی کا نقصان ہو چکا ہے جو اِس وقت تربیلا اور منگلا میں موجود پانی کی مقدار سے دگنا ہے۔ 1977 سے 1999 تک پانی کا نقصان صرف 11 فیصد ہوتا تھا جو 2000 سے 2020 تک بڑھ کر 21 فیصد ہو چکا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کے ضیاع کو روکا جائے اور پانی کی تقسیم کا عمل شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ ملک میں آبی ذخائر میں مزید اضافہ کیا جائے کیونکہ بدلتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے آئندہ سالوں میں پاکستان کو پانی کی قلت کے حوالے سے مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور صوبوں کے درمیان تناؤ کشیدگی میں بدل سکتا ہے۔

Related Posts