آج حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے شہر لاہور میں امان اللہ خان کے نام سے دنیائے مزاح کے روشن باب کا اختتام ہوا جس نے سالہا سال پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے اردو سمجھنے والوں کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔
ستر برس کی عمر میں دنیائے فانی کو الوداع کہنے والے امان اللہ خان نے عوام کے لیے ایسے ایسے یادگار چٹکلے تخلیق کیے اور فن کے ایسے ایسے نادرونایاب نمونے تخلیق کیے جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
امان اللہ کے انتقال پر سہیل احمد کا بیان
مشہورو معروف اداکار اور مزاحیہ فنکار سہیل احمد نے امان اللہ خان کے انتقال کو پرفارمنگ آرٹ فیلڈ کا سب سے بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی خدمت امان اللہ سے بہتر تاریخ میں کسی نے نہیں کی۔
سینئر اداکار سہیل احمد نے کہا کہ کامیڈی اور مزاح کا جو انداز ان کے پاس تھا، وہ کسی اور کے پاس نظر نہیں آتا۔ انہوں نے امان اللہ خان کے لیے جنت میں اعلیٰ مقام کی دُعا کی۔
امان اللہ خان کا کیرئیر
سہیل احمد کے مطابق امان اللہ خان نے چالیس سال سے زائد عرصہ عوام کو خوشیاں بانٹتے ہوئے گزارا۔ سن 1978ء میں کامیڈی کی دنیا میں قدم رکھنے والے امان اللہ کے ساتھ تھیٹر اور ٹی وی کی دنیا میں بے شمار ستاروں نے کام کیا۔
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ 860 روز مسلسل دن رات تھیٹر کے ڈراموں میں کام کرنے کا ورلڈ ریکارڈ مرحوم امان اللہ خان کے پاس ہے۔
سن 2010ء میں امان اللہ خان نے خبرناک نامی جیو نیوز کے پروگرام میں مسکراہٹیں بانٹنا شروع کیں۔ انہوں نے اگست 2013ء تک مسلسل اس پروگرام میں کام جاری رکھا۔
مذاق رات نامی ٹی وی شو میں امان اللہ نے چاچا بشیر کا کردار ادا کیا۔ مختلف کامیڈینز نے متعدد مواقع پر امان اللہ کو اپنا استاد قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے کامیڈی امان اللہ خان سے سیکھی ہے۔
بھارتی کامیڈین کپیل شرما اور بھارت میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے شکیل صدیقی سمیت متعدد کامیڈینز نے ہمیشہ امان اللہ خان کے کام کو سراہا اور ان کی عزت کی۔
بعد ازاں امان اللہ خان نے آفتاب اقبال کے شو خبرزار میں سن 2018ء میں کامیڈی شروع کی۔ امان اللہ خان نے 2003ء میں ون ٹو کا ون اور 2014ء میں نامعلوم افراد نامی دو پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا۔
کامیڈین امان اللہ خان کے ساتھ کام کرنے والے بڑے بڑے ناموں میں سہیل احمد کے علاوہ افتخار ٹھاکر، امانت چن، ناصر چنیوٹی، ببو برال اور عابد خان سمیت متعدد نام شامل ہیں جو امان اللہ خان کے کمالِ فن کے معترف رہے۔
کامیڈی کے شعبہ جات
مایہ ناز کامیڈین امان اللہ خان نے تھیٹر سے اپنے فن کا آغاز کیا، تاہم جن کامیڈی کے جن شعبوں پر انہیں مہارت حاصل رہی ان میں اسٹینڈ اَپ کامیڈی، فلم اور ٹی وی کامیڈی کے ساتھ ساتھ لائیو شو میں کامیڈی کے شعبہ جات شامل ہیں۔
مزاح کے ساتھ ساتھ امان اللہ خان نے طنز کا سہارا لیتے ہوئے بھی عوام کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ طنزو مزاح کے ساتھ ساتھ مشاہداتی کامیڈی اور چہرے کے تاثرات سے بھی انہوں نے قہقے بکھیرے۔
ذاتی زندگی
امان اللہ خان سن 1950ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ جوانی کے دور سے ہی انہیں کامیڈی کے ڈراموں میں دیکھا جانے لگا۔ انہوں نے تھیٹر کو ایک نیا رنگ عطا کیا جس پر آج پاکستان کے کامیڈی تھیٹر کی بنیاد قائم ہے۔
پاکستانی تھیٹر میں متعدد فنکاروں نے امان اللہ خان سے اکتسابِ فیض حاصل کیا اور دنیائے کامیڈی کے بڑے بڑے ستارے کہلائے۔ امان اللہ خان نے بھارت سمیت بیرونِ ممالک بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔
شخصیت
بطور فنکار امان اللہ خان کی شخصیت اور رکھ رکھاؤ کا ایک زمانہ معترف ہے۔ سہیل احمد کے مطابق امان اللہ ساری ساری رات کام کیا کرتے تھے۔ تھیٹر کرنے کے بعد بھی وہ دیگر پروگراموں میں جا کر عوام کو خوشیاں بانٹتے تھے۔
عوام کو ہنسانا اور خوش رکھنا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ سہیل احمد نے کہا کہ امان اللہ خان جیسا جنونی فنکار انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا جبکہ امان اللہ خان نے کامیڈی کے بادشاہ کے طور پر ہی دارِ فانی سے کوچ کیا۔
مرض الموت
لیجنڈری فنکار امان اللہ خان کو میڈیا رپورٹس کے مطابق گردوں اور پھیپھڑوں کی بیماری لاحق تھی جس کے باعث وہ طویل عرصے سے تکلیف کا شکار تھے۔ سہیل احمد کے مطابق امان اللہ خان ایک خطرناک بیماری میں مبتلا تھے۔
ایکٹر سہیل احمد نے بتایا کہ امان اللہ خان کے پھیپھڑوں نے کام چھوڑ دیا تھا جبکہ ہسپتال کے عملے اور عوام نے امان اللہ خان کا آخری دم تک ساتھ دیا۔
خدمات کا اعتراف
مرحوم امان اللہ خان کو رہتی دنیا تک ان کے فن اور مزاح کی نادرونایاب صلاحیتوں کے باعث یاد رکھا جائے گا۔ ان کی خدمات کا اعتراف حکومتِ پاکستان نے بھی کیا ہے۔ صدرِ پاکستان نے 2018ء میں انہیں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ) سے نوازا۔