پاکستان اس وقت غیر ملکی قرضوں میں بال بال پھنسا ہوا ہے، ملک کا مجموعی بیرونی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے،پاکستان کے ذمہ واجب الادا مجموعی رقم اس وقت 115 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر 2020 تک ملک کا مجموعی قرض 115اعشاریہ 756 ارب ڈالر تھاتاہم ایک سال پہلے یعنی 31 دسمبر 2019 کو 110اعشاریہ 719 ارب ڈالر تھا یعنی پاکستان کے ذمہ مجموعی طور پر واجب الادا قرض میں ایک سال میں پانچ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
ہم پچھلے کئی سالوں سے ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے قرضہ لیتے آرہے ہیں اور مہنگائی کبھی رکتی نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت آئے ، حکمران ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں اور ان کی سوچ سیاسی ہوتی ہے ، قائد اعظم کے فلاحی ریاست کے نظریئے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی ریاست بنائی جائے جہاں عوام خوشحال ہوں لیکن شومئی قسمت کہ پاکستان میں آنیوالے ہر حکمران نے اپنی سیاسی مفادات پر ملکی مفادات کو قربان کردیا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم لاتعداد مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
پاکستان کا آئین عوام کوتعلیم، صحت، روزگارسمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کا پابند ہے لیکن پاکستان میں آنیوالی کسی بھی حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات نہیں کئے ، آج کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس نے کوئی ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا ہو جس کی مثال دی جاسکے۔پاکستان میں حکومت کی طرف سے تعلیم کی فراہمی میں عدم دلچسپی کے باعث تعلیم کا شعبہ بھی کاروبار میں تبدیل ہوچکا ہے اور آج اعلیٰ تعلیم ہونے کے باوجود اسی لئے عقل و شعور کی کمی ہے۔
ملک میں مہنگائی میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے ، پاکستان کے عوام کو شائد ایسا لگا تھا کہ موجودہ حکومت ملک میں واقعی تبدیلی لائیگی لیکن آج بھی وہی پرانے لوگ پاکستان کی معیشت کا فیصلہ کررہے ہیں جنہوں نے پاکستان کو بدحال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، آج ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت آخر کیوں برسوں سے آزمائے لوگوں پر ہی اکتفا کرکے بیٹھی ہے کیونکہ جو لوگ پچھلے کئی دہائیوں سے پاکستان کیلئے کچھ نہیں کرسکے ہونا ان سے آگے بھی کچھ نہیں ہے۔
پاکستان کی معیشت کے فیصلہ ساز سیاسی قائدین یا اسٹیبلشمنٹ کو ایسی یقین دہانیاں کرواکر حکومت میں شامل ہوتے ہیں کہ جس آج ہی معاشی قسمت بدل جائیگی لیکن یہ سیاسی شعبدہ باز اعداد وشمار کا کھیل پیش کرکے اعلیٰ قیادت کو دھوکہ میں رکھتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ عوام نہ پہلے کبھی خوش تھے نہ آج خوش ہیں، پاکستان کے عوام ہمیشہ سے روٹی، کپڑا اور مکان کی آس لگائے بیٹھے رہے اور آج بھی ان کو امید ہے کہ نیا آنیوالا حکمران شائد ان کے بھوک پیٹ کی آگ بجھاسکے یا ننگے تن کو ڈھانپ کر رہنے کیلئے چھت فراہم کردیگا لیکن اب تک ایسا کوئی حکمران نہیں آیا جس نے عوام کی حالت زار بدلنے پر توجہ دی ہو۔
پاکستان کو بہتر بنانے کیلئے اہل لوگوں کو درست جگہوں پر کام کرنا ہوگا، پی ٹی آئی حکومت ڈھائی سال سے زیادہ وقت گزانے کے باوجود اپنی ترجیحات حتیٰ کہ وزارتو ں کے قلمدانوں کا بھی فیصلہ نہیں کرپائی۔ عمران خان اپنے دوستوں کو نوازنے میں اس حد تک مگن ہوجاتے ہیں کہ اکثر ایسے لوگوں کو وزارتوں کے قلمدان سونپ دیتے ہیں جن کو متعلقہ وزارت کے حوالے سے بالکل سوجھ بوجھ نہیں ہوتی ۔ موجودہ اور سابقہ حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے،شیخ رشید اور فواد چوہدری اقرباء پروری کی مثالیں ہیں اور آئندہ سینیٹ الیکشن کیلئےبھی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اپنے دوستوں کو نوازتے دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان کو بنیادی مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے اقرباء پروری اور موروثی سیاست کا خاتمہ ناگزیر ہے جب تک ہم دوستوں کو نوازنے کی پالیسیوں پر گامزن رہیں گے پاکستان کبھی ترقی نہیں کریگا۔
اس وقت پاکستان کو معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے اس کیلئے ہمیں سنجیدگی سے کام کرنا ہوگااور ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جنہیں معلوم ہو کہ پاکستان کے مسائل کے حل کیلئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں اورزرعی ماہرین اور تمام شعبوں میں ماہرین کو آگے لانا چاہیے ۔
جہاں تک پارلیمنٹ میں جمہوریت کی بات کی جائے تویہاں بھی عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں ہے، پاکستان میں سیاست بھی کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے اس لئے الیکشن میں حصہ لینا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ انتخابی سیاست کیلئے کروڑوں روپے چاہئیں ۔
حکومت کو ایک تھنک ٹینک بنانا چاہیے جو پالیسیاں بناکر دے اور پارلیمان میں ان پالیسیوں پر عملدرآمد کیلئے قانون سازی کی جائے، اگرہم معیشت کی بہتری کیلئے کام نہیں کرینگے تو خدا نخواستہ ہمیں ایسے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے کہ جب ہمیںاپنا ملک دوسروں کے حوالے بھی کرنا پڑے ، حکومتی سرکاری سطح پر فیکٹریاں اور ملیں قائم کرے تاکہ نجی اداروں کی من مانیاں ختم ہوسکیں۔
پاکستان میں معیشت تبدیل نہ ہونے کی بنیادی وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ یہاں ہرجگہ مافیا اپنی مرضی کے نرخ مقرر کرکے امیر سے امیر ترہوتا جارہا ہے، آج سرمایہ کار تو ترقی کررہا ہے لیکن ملکی ترقی منجمد ہوچکی ہے ، امراء کے اثاثے تو بڑھتے جارہے ہیں لیکن ٹیکسز میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا نہ ملازمین کی تنخواہیں بڑھتی ہیں۔حکومت سرکاری سطح پر کاروبار کی سرپرستی کرکے روزگار کے مواقع پیدا کرسکتی ہے اور اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات مل جائیگی کیونکہ نجی اداروں میں قابض مافیا مالکان کو دھوکے میں رکھ کر نقصان پہنچاتا ہے اور مسابقت نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے ۔پاکستان میں حکومتی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے آٹوموبائل انڈسٹری بے لگام ہوچکی ہے اور عدم مسابقت کی وجہ سے آج پاکستان میں سب سے مہنگی گاڑیاں فروخت ہورہی ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں مقابلے کی فضاء قائم کی جائے اور نجی اداروں کی اجارہ داری ختم کرکے عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے اور سیاسی قائدین اپنی گروہی مفادات کو پس پشت رکھ کر سب سے پہلے پاکستان کی سوچ اپنائیں اور ملک کو مستحکم بنانے پر توجہ دیں۔