وفاقی حکومت کی جانب سے 2002 سے 2023 تک توشہ خانہ کی تفصیلات کے حالیہ اجراء نے پاکستان کے سیاسی افق پر ہلچل مچا دی ہے۔
تحائف پانے والے سیاستدانوں کی فہرست میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، مریم نواز، سابق صدر آصف علی زرداری، موجودہ صدر عارف علوی سمیت کئی بڑے نام شامل ہیں جنہیں توشہ خانہ سے تحائف موصول ہوئے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں پر یہ تحائف وصول کرتے ہوئے قواعد و ضوابط اور قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی جانب سے 1988 سے اب تک کی تفصیلات جاری کرنے کے مطالبے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ فواد چوہدری نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ فوجی جرنیلوں اور ججوں کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات بھی منظر عام پر لائی جائیں۔ چوہدری کا خیال ہے کہ کسی کو بھی مقدس گائے نہیں سمجھا جانا چاہیے اور ہر فرد چاہے اس کی حیثیت کچھ بھی ہو، اس کے اقدامات عوام کے سامنے ہونے چاہئیں۔
توشہ خانہ سے سیاستدانوں کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات کا اجراء ایک مثبت قدم ہے، کیونکہ یہ جاننا عوام کا حق ہے کہ کس نے کون سا قیمتی تحفہ کس معمولی یا مناسب قیمت پر وصول کیا۔ شفافیت اور احتساب جمہوری نظام حکومت کی بنیاد ہیں، اور عوام کو اپنے منتخب نمائندوں کے اقدامات سے آگاہ رہنے کا حق ہے۔
تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ حکومت نے کچھ معلومات کو خفیہ رکھا اور کچھ ظاہر کیں۔ حکومت فواد چوہدری کے مطالبے سے پہلے ہی تمام تر تفصیلات جاری کر دیتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ اگر حکومت ایسا کرتی تو سب کی طرف سے اسے سراہا جاتا اور حکومت کی شفافیت اور احتساب کے عزم پر کوئی شخصیت سوال نہیں اٹھا سکتی تھی۔
پاکستان کے ملکی قوانین کے علاوہ بین الاقوامی قوانین بھی معلومات تک رسائی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمی منشور آزادئ اظہار کے حق کو تسلیم کرتا ہے جس میں معلومات حاصل کرنے اور رسائی کا حق بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی عوام کو اپنی حکومت اور منتخب نمائندوں کے اقدامات کے بارے میں معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔
بدعنوانی کے خلاف اقوامِ متحدہ کا کنونشن بھی حکومتی سرگرمیوں میں شفافیت اور جوابدہی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ کنونشن رکن ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معلومات تک عوام کی رسائی اور حکومتی سرگرمیوں کی شفافیت کو فروغ دیں، جن میں عوامی عہدیداروں کے تحائف کی وصولی سے متعلق معلومات تک رسائی شامل ہے۔
دراصل 2002 سے 2023 تک توشہ خانہ کی تفصیلات کا اجراء بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔ یہ حکومت کی شفافیت اور عوام کے سامنے جوابدہ ہونے پر آمادگی کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔
تاہم پاکستان میں معلومات تک رسائی کے حق کا مکمل تحفظ اور احترام کو یقینی بنانے کے لیے ابھی مزید کام کرنا باقی ہے۔ اس میں ایسے قوانین اور اداروں کو مضبوط کرنا شامل ہے جو شفافیت اور احتساب کو فروغ دیتے اور اس بات کو یقینی بناتے ہوں کہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے افراد اور ادارے اپنے اقدامات اور افعال کیلئے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔