آج میدانِ عرفات میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں فرزندان توحید نے اللہ کے حضور سر جھکائے، آنکھوں سے اشک بہائے اور زباں سے پکارا، لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک۔ یہ ہے یومِ عرفہ حج کا سب سے اہم دن، جسے نبی کریم ﷺ نے حج کا دن قرار دیا۔
دنیا کے ہر کونے سے آنے والے فرزندانِ توحید اپنے سفید احراموں میں لپٹے، عاجزی و انکساری کے ساتھ میدان عرفات کی طرف رواں دواں ہیں۔ منیٰ میں پانچ نمازیں ادا کرنے کے بعد قافلوں کی صورت میں زائرین عرفات پہنچے۔ سرکاری عازمین کو رات ہی سے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے مسجد نمرہ پہنچایا جا رہا ہے، جبکہ بہت سے افراد پیدل یا ذاتی ذرائع سے اس روح پرور مقام پر پہنچے۔
میدان عرفات کے روحانی منظر کو مزید جِلا اس وقت ملی جب امام کعبہ شیخ صالح بن حمید نے مسجد نمرہ میں خطبۂ حج دیا۔ لاکھوں زائرین نے خشوع و خضوع سے خطبہ سنا، اور پھر امام کی اقتداء میں ظہر اور عصر کی قصر نمازیں ایک ساتھ ادا کیں۔
جو افراد مسجد نمرہ نہ پہنچ سکے، وہ اپنے خیموں میں ہی نمازیں ادا کر رہے ہیں اور سارا دن اللہ کی بارگاہ میں دعا، توبہ اور مناجات میں مصروف ہیں۔ یہ دن رحمت، مغفرت اور گناہوں کی معافی کے لیے اللہ کے در پر حاضر ہونے کا دن ہے۔
نمازِ مغرب کے وقت، عرفات میں مغرب ادا کیے بغیر حاجی مزدلفہ کی طرف روانہ ہوں گے، جہاں وہ مغرب اور عشاء ایک ساتھ ادا کریں گے۔ کھلے آسمان تلے آرام کریں گے اور فجر کی نماز کے بعد وقوفِ مزدلفہ کریں گے – یہ بھی حج کا ایک اہم رکن ہے۔
فجر کے بعد حاجی 72 کنکریاں چنیں گے اور منیٰ کی طرف روانہ ہوں گے۔
10 ذوالحجہ کو بڑے شیطان (جمرہ عقبہ) کو کنکریاں ماریں گے، قربانی کریں گے، حلق یا قصر کرائیں گے اور پھر طواف زیارت کے لیے مکہ مکرمہ جائیں گے۔ اس کے بعد دوبارہ منیٰ واپس آئیں گے۔
11 اور 12 ذوالحجہ کو تینوں جمرات (چھوٹا، درمیانہ، بڑا شیطان) کو کنکریاں ماری جائیں گی۔
زیادہ تر عازمین 12 تاریخ کو واپس عزیزیہ، ہوٹل یا اپنے ٹھکانوں کی طرف روانہ ہو جائیں گے، جبکہ کچھ 13 ذوالحجہ تک منیٰ میں قیام کریں گے اور اس دن کی کنکریاں مارنے کے بعد واپسی اختیار کریں گے۔
حج کے تمام مناسک کی تکمیل کے بعد، حاجی طوافِ وداع کریں گے جو ہر حاجی پر واپسی سے قبل فرض ہے۔
14 ذوالحجہ سے حاجیوں کی مدینہ منورہ یا اپنے اپنے ملکوں کو واپسی شروع ہو جائے گی۔