پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو راولپنڈی پولیس نے باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا ہے، یہ گرفتاری 28 ستمبر 2024 کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے سلسلے میں ہوئی اور اڈیالہ جیل میں عمل میں آئی، جہاں خان پہلے ہی ایک اور کیس میں زیر حراست ہیں۔
پولیس کی کارروائی نیو ٹاؤن تھانے میں درج مقدمے کے بعد کی گئی۔ عمران خان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات 7 اور 21-I کے ساتھ ساتھ پاکستان پینل کوڈ کی مختلف شقوں کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں دفعات 353، 186، 285، 286، 148، 149، 427، 109، اور 188 شامل ہیں۔ یہ الزامات پی ٹی آئی کے مبینہ طور پر پرتشدد احتجاج میں ان کے کردار سے متعلق ہیں۔
عمران خان، جو اس وقت ایک الگ کیس میں زیر حراست ہیں، کل عدالت میں جسمانی ریمانڈ کے لیے پیش ہوں گے۔ اس سماعت میں عدالت فیصلہ کرے گی کہ آیا مزید تحقیقات کے لیے انہیں پولیس کی حراست میں رکھا جائے یا نہیں۔
قبل ازیں ایک اہم پیش رفت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو ضمانت دے دی۔ یہ کارروائی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں ہوئی۔ عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو نے اس کیس میں ایک بیان ریکارڈ کیا تھا، جسے بعد میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کے سپرد کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کو بشریٰ بی بی سے کیا مسائل ہیں؟ اہم اجلاس سے کیوں غائب رہے؟
ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے وضاحت کی کہ دفعہ 164 کے تحت بیانات مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اس بات کی نشاندہی کی کہ حالیہ قانونی ترامیم کے تحت کیس کا دائرہ اختیار نیب سے ایف آئی اے کو منتقل ہو گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ قیمتوں کے غلط اندازے کے ذمہ دار کسٹمز افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ان کی غفلت مجرمانہ بدعنوانی کے زمرے میں نہیں آتی اور نیب نے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش نہیں کی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے تبصرہ کیا، “چلیے، یوں سمجھ لیں کہ وہ بہت اچھے لوگ ہیں،” جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ عدالت نے عمران خان کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی بانڈز اور ٹرائل کورٹ کے ساتھ تعاون کی شرط پر ضمانت دی۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ٹرائل کے دوران عدم تعاون کی صورت میں ضمانت منسوخ کی جا سکتی ہے۔