اس سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ اگر امریکہ نے چھینک لیا تو دنیا سردی کی لپیٹ میں آجاتی ہے ، آج وہ حال چین کا ہے جس سے چھینک آئی ہے اور باقی دنیا نے فلو پکڑ لیا ہے ۔ حالیہ وبائی بیماری نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ ہم کتنے قریب سے ایک دوسرے پر منحصر ہیں کوئی بھی قوم ریاست یا علاقہ اس کی سرحدوں کو بند کرنے اور اپنی پیداوار پر زندگی گذارنے کے لئے کافی نہیں ہے ۔
سرحد پار تجارت لوگوں کی نقل و حرکت اور بین الاقوامی ٹیکنالوجی پر انحصار کچھ ایسے عناصر ہیں جن کا ہم دوسرے ممالک کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں۔ آج کی دنیا میں کسی ایک ملک پر پابندی عائد کرنا کوئی اچھا اقدام نہیں جب باقی دنیا پوری دنیا پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے ۔
باقی دنیا نے چین کووائرس پھیلانے کے لئے مجرم قرار دینے سے دریغ نہیں کیا ، چین کے ساتھ تجارت بند کردی گئی ، مسافروں کی نقل و حرکت رک گئی اور وائرس کو الگ کرنے کے بجائے اقوام نے چین کو قرنطینہ کرنے کی کوشش کی۔
اسی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکانے وبائی مرض کو چینی فلو قرار دے کر نام و الزام کے ایک ہی عالمی کورس کی پیروی کی جبکہ اس وبائی مرض کی قیمت لاکھوں شہری اداکررہے ہیں کیوں کہ فیکٹریاں بند ہورہی ہیں ، اسکول بند ہورہے ہیں اور تجارتی سرگرمیاں بھی رک چکی ہیں کیوں کہ دنیا کی چوتھائی آبادی کو ان کی حکومتوں نے بند کردیا ہے ۔
اس بیماری نے دنیاکو بے دردی سے متاثر کیا ہے ۔ عام آدمی جو تجارتی سرگرمیوں پر معاشی طور پر انحصار کرتے ہیں وہ فاقہ کشی سے دور چار ہیں، تاہم طلبائ کو بھی آن لائن کلاسوں کے لئے سائن اپ کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جو بغیر کسی شک کے روایتی کلاس روم کے طریقوں کا بہترین متبادل ہے لیکن ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ایسے کم آمدنی والے گھرانوں کے لئے کمپیوٹر اور ایک مستحکم انٹرنیٹ کنکشن کا متحمل ہونا مشکل ہے جو ایک اضافی لاگت ہے جس نے اضافی ٹیوشن فیسوں کے علاوہ والدین کو بھی نقصان پہنچایا ہے ۔
لاکھوں گھرانوں کا معاشی استحکام زیربحث ہے ، لوگ روزگار سے محروم ہیں ، روزانہ اجرت حاصل کرنے والے بھوک سے مر رہے ہیں اور اس لاک ڈاؤن کے فیصلے نے انہیں اور ان کے اہل خانہ کی معاشی حالت کو متاثر کیا ہے ۔
اس سے نہ صرف غریب طبقے بلکہ متوسط طبقے بھی متاثر ہوئے ہیں ، جنہوں نے پہلے ہی مشکل اوقات میں اپنی معاشی پریشانیوں سے مقابلہ کیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا جس سے معاشرے پر سنگین معاشرتی مضمرات پڑسکتے ہیں۔
بلاشبہ وفاقی حکومت نے وبائی امراض کے اثرات کو کم کرنے کے لئے معاشی طور پر پریشان افراد کو امدادی پیکیج دینے کا اعلان کیا ہے لیکن ہمیں خود کو مزید مشکلات کےلئے تیار کرنا ہوگا۔
اگر اقوام عالم نے جنگی سازوسامان کے بجائے صحت پرباقاعدگی سے خرچ کیا ہوتا تو ہمیں اس طرح کے وائرس،وبائی امراض یا قدرتی آفات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مجھے یقین ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس واقعے سے جنگ کی حکمت عملی پر چلنے والی قوموں کے ذہن تبدیل ہوجائینگے۔