ایک لاکھ ارب ڈالر کا قرضہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Ten Trillion Dollar Debt

پسماندہ ممالک تو چلتے ہی قرضوں پر ہیں، لیکن اکلوتی سپر پاور سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک پر بھی قرضوں کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے انکشاف کیا ہے کہ 2024ء میں قرضوں کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور حکومتوں کا مجموعی قرضہ 100 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گیا۔

قارئین یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ایک ٹریلین یا کھرب، ایک لاکھ ارب ڈالر کے مساوی ہوتا ہے۔ یوں حکومتوں پر قرضوں کا بوجھ ایک لاکھ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ مستقبل کے حوالے سے بھی یہی توقع ہے کہ قرضوں کی سطح پہلے سے زیادہ تیزی سے بڑھے گی، کیونکہ حکومتوں کی پالیسیاں قرضوں کے خطرات کو ختم یا کم کرنے میں ناکام ہیں، خاص طور پر بڑھتی ہوئی آبادی کی عمر رسیدگی اور صحت کی دیکھ بھال کے ہوشربا اخراجات کے پس منظر میں۔ نیز، جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جو حکومتوں کے بجٹ پر مزید دباؤ ڈالے گا اور قرض وصولی کا سلسلہ بھی بڑھے گا۔

آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں عوامی قرضوں کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے جتنا کہ زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں اور صورتحال نے امریکہ اور چین جیسی مضبوط معیشتوں کو بھی مالی خسارے سے دوچار کیا ہے۔ مالیاتی ادارے نے پیش گوئی کی ہے کہ عالمی قرضہ 2030 تک کل بین الاقوامی جی ڈی پی کے بالکل مساوی ہوجائے گا۔

امریکہ اور چین:
دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر، امریکہ کا قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امریکی وزارتِ خزانہ کی 12 دسمبر 2024 کی رپورٹ کے مطابق، حکومتی قرضہ 36.1 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو دنیا کی تمام حکومتوں کے قرضوں کا 34.6 فیصد بنتا ہے۔ چین، جو عالمی معیشت میں دوسرے نمبر پر ہے، 16.4 ٹریلین ڈالر کے مجموعی حکومتی قرضے کے ساتھ عالمی سطح پر حکومتی قرضوں کا 16.1 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ دونوں کا مجموعی قرضہ دنیا کے کل قرضے کا نصف یعنی 50.1 فیصد ہے۔ اگر ان دونوں ممالک کو حساب سے نکال دیا جائے تو عالمی عوامی قرضے کی GDP کے ساتھ تناسب میں تقریباً 20 کی کمی واقع ہو جائے گی۔

عرب دنیا میں قرضوں کی صورتحال:
عرب ممالک میں مصر 345.5 بلین ڈالر کے ساتھ سب سے زیادہ مقروض ہے، جبکہ اس کے بعد سعودی عرب کا نمبر آتا ہے، جس کا مجموعی قرضہ 311.5 بلین ڈالر ہے۔

حکومتیں قرض کیوں لیتی ہیں؟
دنیا بھر کی حکومتیں زیادہ تر اپنی آمدنی ٹیکسوں سے حاصل کرتی ہیں۔ عوام مختلف اقسام کے ٹیکس ادا کرتے ہیں جیسے کہ آمدنی کا ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ویلیو ایڈیڈ ٹیکس، جبکہ کمپنیاں اپنی کمائی پر منافع کا ٹیکس ادا کرتی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر ٹیکس بھی شامل ہیں۔

بادی النظر میں یہ ٹیکس اتنا ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے تمام اخراجات ٹیکسوں کے ذریعے پورا کر سکتا ہے اور بعض ممالک ایسا کرتے بھی ہیں۔ لیکن اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام ہو تو اسے یہ خلا پُر کرنے کے لیے تین راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں: ٹیکس بڑھانا، اخراجات میں کمی کرنا اور قرض لینا۔ ٹیکسوں میں اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے پاس خرچ کرنے کے لیے کم رقم ہوگی، جس کے نتیجے میں کمپنیوں کے منافع میں کمی آئے گی، جو روزگار اور اجرت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ضیا چترالی کے دیگر کالمز پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

مزید یہ کہ اگر منافع کم ہوں تو کمپنیاں کم ٹیکس ادا کریں گی۔ پھر عام طور پر حکومتی اخراجات میں کمی کے بجائے ہر سال نت نئے مصارف کی وجہ سے اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے حکومتیں معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قرض لینے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ وہ بڑے منصوبوں کی مالی معاونت کے لیے بھی قرض لیتی ہیں، جیسے کہ ریلوے، نئی سڑکیں، صحت کی دیکھ بھال کے منصوبے وغیرہ۔

حکومتیں کئی طریقوں سے قرض لیتی ہیں، جن میں سے سب سے اہم طریقہ درج ذیل ہے:
بانڈز کی فروخت
حکومتیں سرمایہ کاروں کو بانڈز فروخت کر کے رقم جمع کرتی ہیں۔ جو سرمایہ کار بانڈ خریدتا ہے، وہ ایک مقررہ مدت کے لیے حکومت کو رقم قرض دیتا ہے۔ اکثر بانڈز پر وقتاً فوقتاً سود ادا کیا جاتا ہے، جسے “کوپن ادائیگیاں” کہا جاتا ہے۔

جب بانڈ کی مقررہ مدت مکمل ہو جاتی ہے، جسے بانڈ کی “میچورٹی تاریخ” کہا جاتا ہے، حکومت اصل رقم کے ساتھ منافع بھی واپس کرتی ہے۔ کچھ بانڈز قلیل مدتی ہوتے ہیں، کچھ درمیانی مدت کے اور کچھ طویل مدتی ہوتے ہیں، جو دہائیوں تک چل سکتے ہیں۔ عام طور پر، بانڈز یا حکومتی قرضوں کی خریداری ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھی جاتی ہے، خاص طور پر اگر آپ کسی امیر اور مستحکم ملک، جیسے کہ امریکہ، کو قرض دے رہے ہوں۔ امریکہ کو عموماً سب سے کم خطرے والی معیشت سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اپنے خود مختار قرضوں کی ادائیگی میں کبھی ناکام نہیں رہا۔

آئی ایم ایف سے قرضہ
حکومتیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بھی قرض لیتی ہیں، جو رکن ممالک کو مالی مدد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ معاشی بحرانوں سے نمٹ سکیں۔ آئی ایم ایف صرف حکومتوں کو قرض دیتا ہے، نہ کہ نجی شعبے یا سول سوسائٹی کو۔ اس کی طرف سے دیئے جانے والے قرضوں کا کوئی خاص منصوبہ یا مخصوص اخراجات سے تعلق نہیں ہوتا، اس کے برعکس ترقیاتی بینکوں کے قرضوں کی رقم عموماً خاص منصوبوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف کے تمام قرضے تقریباً سخت شرائط کے ساتھ ملتے ہیں، جن میں حکومتوں کو ایسی پالیسی تبدیلیاں کرنا ہوتی ہیں جن کے تحت وہ یہ مالی معاونت حاصل کر سکیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ یکم دسمبر 2024 سے 24 دسمبر 2024 تک کی کریڈٹ موومنٹ تقریباً 112.5 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔

عالمی بینک سے قرضہ
عالمی بینک گروپ بنیادی طور پر ترقی پذیر ممالک اور مخصوص منصوبوں کے لیے نجی اداروں کو قرض فراہم کرتا ہے۔ اس کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ (IDA) سے قرض حاصل کرنے کے لیے ممالک کی فی کس آمدنی 1085 ڈالر سے کم ہونی چاہیے اور ان ممالک کو پہلے سے عالمی مالیاتی فنڈ یا عالمی بینک کے قرضوں کی ادائیگی میں پچھڑنا نہیں چاہیے۔

وہ ممالک جن کی آمدنی درمیانے درجے میں زیادہ ہے (جن کی فی کس آمدنی 4046 ڈالر سے 12,535 ڈالر کے درمیان ہوتی ہے) عالمی بینک سے کم شرح سود پر قرض لے سکتے ہیں، جو تجارتی بینکوں سے ملنے والی شرح سود سے کم ہوتا ہے۔ جبکہ وہ ممالک جن کی آمدنی درمیانے درجے میں کم ہے (فی کس آمدنی 1036 ڈالر سے 4045 ڈالر کے درمیان ہو) عالمی بینک کے قرضوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

داخلی قرضے
اس کا مطلب وہ رقم ہے جو کوئی ملک اپنے اندرونی ذرائع سے ہی حاصل کرتا ہے۔ دنیا کی کئی حکومتیں اپنے ملک میں کام کرنے والے قومی اور مقامی بینکوں سے قرض لیتی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر اداروں جیسے سوشل سیکورٹی ادارے اور مقامی سرمایہ کاری ادارے بھی حکومتوں کو قرض فراہم کرتے ہیں۔

قرضوں کا خطرہ اور اثرات
قرض لینا ترقی کے لیے اہم ہو سکتا ہے، کیونکہ حکومتیں اسے اپنے اخراجات کو پورا کرنے، اپنے عوام کی حفاظت کرنے اور ان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ تاہم یہ ایک بھاری بوجھ بھی بن سکتا ہے جب عوامی قرضہ بے تحاشہ یا بہت تیزی سے بڑھتا ہے، یہ وہ صورتحال ہے جو آج دنیا کے مختلف حصوں میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، نظر آ رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی تجارتی اور ترقیاتی تنظیم (UNCTAD) کے مطابق، ترقی پذیر ممالک کو کئی خطرات کا سامنا ہے۔ یہ ممالک امریکہ کے مقابلے میں 2 سے 4 گنا اور جرمنی کے مقابلے میں تقریباً 6 سے 12 گنا زیادہ شرح سود پر قرض لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان ممالک کے وسائل بھی تیزی سے باہر منتقل ہوتے ہیں۔

2022 میں، ترقی پذیر ممالک نے اپنے بیرونی قرض دہندگان کو 49 ارب ڈالر زیادہ سود ادا کیا، یہ رقم نئے قرضوں میں ملنے والی رقم سے زیادہ تھی۔ سود کی ادائیگیاں بڑھنے سے عوامی اخراجات جیسے صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبے سکڑ رہے ہیں۔ دنیا میں مجموعی طور پر 3.3 ارب افراد ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں تعلیم اور صحت کے مقابلے میں بیرونی سود کی ادائیگی کے لیے زیادہ رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔

10 سب سے زیادہ مقروض ممالک:
ہم یہاں دنیا کے 10 سب سے زیادہ مقروض ممالک کی فہرست پیش کر رہے ہیں، جو 2024ء کے اختتام پر میں عالمی معیشت کی آفاقی رپورٹ میں پیش کی گئی ہے۔ یہ فہرست عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ اور امریکی قرض کے حوالے سے وزارت خزانہ کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔

1- امریکہ
مجموعی قرض: 36.1 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 34.6 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 121 فیصد
2- چین
مجموعی قرض: 16.5 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 16.1 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 90.1فیصد
3- جاپان
مجموعی قرض: 10.2 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 10فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 251.2فیصد
4- برطانیہ
مجموعی قرض: 3.7 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 3.6 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 101.8 فیصد
5- فرانس
مجموعی قرض: 3.6 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 3.5 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 112.3 فیصد
6- اٹلی
مجموعی قرض: 3.3 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 3.2 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 136.9 فیصد
7- بھارت
مجموعی قرض: 3.2 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 3.2 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 83.1 فیصد
8- جرمنی
مجموعی قرض: 2.95 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 2.9 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 62.7 فیصد
9- کینیڈا
مجموعی قرض: 2.35 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 2.3 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 106.1 فیصد
10- برازیل

مجموعی قرض: 1.9 ٹریلین ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 1.9 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 87.6 فیصد

جیسا کہ اس فہرست سے ظاہر ہے، سب سے زیادہ مقروض ممالک بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ عالمی معیشت خود خطرے میں ہے۔

سب سے زیادہ مقروض عرب ممالک:
2024ء میں سب سے زیادہ مقروض 10 عرب ممالک کی فہرست، جو پچھلی رپورٹوں کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے:

1- مصر
مجموعی قرض: 345.5 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.3 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 90.9 فیصد
2- سعودی عرب
مجموعی قرض: 311.5 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.3 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 28.3 فیصد
3- متحدہ عرب امارات
مجموعی قرض: 171.1 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.2 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 31.4 فیصد
4- عراق
مجموعی قرض: 121.2 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.1 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 45.9 فیصد
5- الجزائر
مجموعی قرض: 118.9 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.1 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 45.7 فیصد
6- مراکش
مجموعی قرض: 107.9 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.1 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 68.7 فیصد
7- سوڈان
مجموعی قرض: 102.6 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.1 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 344.4 فیصد
8- قطر
مجموعی قرض: 91.2 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.1 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 41.2 فیصد
9- بحرین
مجموعی قرض: 60.6 ارب ڈالر

عالمی قرض کا حصہ: 0.1 فیصد
جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 126.7 فیصد

10- اردن
مجموعی قرض: 48.9 ارب ڈالر
عالمی قرض کا حصہ: 0.1 فیصد سے کم

جی ڈی پی کے تناسب سے قرض: 91.7 فیصد
آخر میں وطن عزیز کے قرضوں پر بھی کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت پر کل قرضوں کا حجم 252.49 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ان میں 79.03 ارب ڈالر بیرونی اور 173.47 ارب ڈالر مقامی قرضہ شامل ہے۔ ملکی کرنسی میں یہ رقم 70 ہزار 362 ارب روپے بنتی ہے۔

Related Posts