امیروں پر عائد ٹیکس میں اضافہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بڑی صنعتوں پر ٹیکس لگانا ایک نیک شگون ہے کیونکہ تنخواہ دار طبقہ عرصہ دراز سے مالی بحران اور ٹیکسوں کا بوجھ جھیل رہا تھا اور اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اگلے مالی سال میں اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنی ٹیکس آمدنی میں زبردست اضافہ کرے۔

اگر پاکستان بیرونی قرض کی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کو روکنا چاہتا ہے تو ائی ایم ایف کے معطل شدہ قرض کی بحالی کو یقینی بنانا ضروری ہے اور یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین قرض کی بحالی پر مذاکرات جاری ہیں۔ 

آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج  سیاسی بحران اور پاکستان کی جانب سے قرض کی شرائط پوری کرنے میں ناکامی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ اپریل میں اقتدار میں آنے کے بعد سے شریف انتظامیہ نے ایندھن کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل  اضافہ کیا ہے اور قرض دینے والے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات بھی متعارف کرائے۔ 

نئے ٹیکس اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 13 مخصوص شعبوں  کی کمپنیوں کو سپر ٹیکس دینا ہوگا جن میں بینکنگ، چینی، سیمنٹ، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، ائیر لائنز، آٹوموبائل، اسٹیل، مشروبات، تیل اور گیس، کھاد، کیمیکلز اور تمباکو شامل ہیں۔ مذکورہ کمپنیوں کا سالانہ منافع 300 ملین روپے سے زیادہ ہے۔ مستقبل قریب میں ختم ہونے والے مالی سال 10 فیصد اضافی ٹیکس کے ساتھ مشروط ہوں گے اور دیگر شعبوں کی کمپنیوں پر 4فیصد تک ٹیکس عائد کیا جائے گا جو 29 سے 35 فیصد کی مجموعی شرح بنتی ہے۔ 

حکومت کا کارپوریٹ شعبے پر ٹیکسز میں اضافہ کاروباری برادری کیلئے تلخ حقیقت سہی، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا پہلے سے ہی بھاری ٹیکسوں کے شکار سیکٹر کی آمدنی پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کتنا کارآمد ثابت ہو گا؟ اور ریونیو جنریشن کی مجموعی صورتحال میں نئے ٹیکسز کو کس سطح پر دیکھا جاسکتا ہے؟

کارپوریٹ پر ٹیکس لگانے کے بارے میں وزیر اعظم کے اعلان کے فوراً بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں زبردست مندی دیکھی گئی، کے ایس ای 100 انڈیکس میں اچانک 2 ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی ہوئی اور مارکیٹ کریش کر گئی۔

دیکھا جائے تو پی ڈی ایم جماعتوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا بہانہ بنا کر پی ٹی آئی کی منتخب حکومت اور وزیر اعظم کو ہٹا دیا اور خود جو مہنگائی کی، وہ تاریخ کی بد ترین مہنگائی کہی جاسکتی ہے۔

اگر ٹیکس کی شرح میں اضافہ اور آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ہی ملک کی بگڑتی معیشت کو سہارا دینے کا واحد طریقہ تھا تو یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس کیلئے پی ڈی ایم یا ن لیگ کا اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنا ضروری نہیں تھا۔ یہ عمران خان سمیت کوئی بھی حکمران کرسکتا تھا جو ملکی معیشت کو سمجھتا ہو۔

ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے قرض در قرض اور سود در سود کی بد ترین اور گھسی پٹی معاشی حکمتِ عملی اپنانے کی بجائے ٹھوس معاشی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر پاکستان آئی ایم ایف کے گرداب میں دھنستا چلا جائے گا اور خاکم بدہن پاکستان کا حال بھی سری لنکا سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ 

Related Posts