سپریم کورٹ نے کسٹم حکام پر غیر ضروری مقدمے بازی کا الزام عائد کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ کسٹم پہلے خود پیسے لے کر گاڑیاں اسمگل کرواتا اور پھر خود ہی پکڑوا دیتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے کسٹمز (کے پی کے) کے ٹرک پکڑنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کسٹمز کے وکیل پر برہمی کا اظہار کیا۔
[visual-link-preview encoded=”eyJ0eXBlIjoiaW50ZXJuYWwiLCJwb3N0IjoxODMxODMsInBvc3RfbGFiZWwiOiJQb3N0IDE4MzE4MyAtINmG2LHbjNmG2K/YsSDZhdmI2K/bjCDZhdmC2KjZiNi224Eg2qnYtNmF24zYsSDZhduM2rog2KfZvtmG24wg2YXYsdi224wg2qnYpyDZiNiy24zYsSDYp9i52YTbjNmwINqG2Kfbgdiq25Ig24HbjNq625TZhdmE24zYrduBINmE2YjYr9q+24wiLCJ1cmwiOiIiLCJpbWFnZV9pZCI6MTgzMTg0LCJpbWFnZV91cmwiOiJodHRwczovL21tbmV3cy50di91cmR1L3dwLWNvbnRlbnQvdXBsb2Fkcy8yMDIzLzEyL01hbGVlaGEtTG9kaGktMzAweDI1MC5qcGciLCJ0aXRsZSI6ItmG2LHbjNmG2K/YsSDZhdmI2K/bjCDZhdmC2KjZiNi224Eg2qnYtNmF24zYsSDZhduM2rog2KfZvtmG24wg2YXYsdi224wg2qnYpyDZiNiy24zYsSDYp9i52YTbjNmwINqG2Kfbgdiq25Ig24HbjNq625TZhdmE24zYrduBINmE2YjYr9q+24wiLCJzdW1tYXJ5Ijoi2LPYp9io2YIg2LPZgduM2LEg2YXZhNuM2K3bgSDZhNmI2K/avtuMINqp2Kcg2qnbgdmG2Kcg24HbkiDaqduBINio2r7Yp9ix2KrbjCDZiNiy24zYsSDYp9i52LjZhSDZhtix24zZhtiv2LEg2YXZiNiv24wg2YXZgtio2YjYttuBINqp2LTZhduM2LEg2YXbjNq6INin2b7ZhtuMINmF2LHYttuMINqp2Kcg2YjYstuM2LHZkCDYp9i52YTbjNmwINmE2KfZhtinINqG2Kfbgdiq25Ig24HbjNq625QiLCJ0ZW1wbGF0ZSI6InNwb3RsaWdodCJ9″]
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں بات کرتے ہوئے آپ قانون کی بات نہیں کر رہے۔ پشاور بارڈر سے 400کلومیٹر اندر کی طرف ایک گاڑی پکڑی گئی جس کا کسٹم کو علم ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کسٹم حکام پہلے خود پیسے لے کر گاڑیاں اسگل کرواتے، پھر پکڑوا دیتے ہیں۔ کیوں نہ کسٹمز کے خلاف انکوائری کروائی جائے؟ ٹرک 1996 میں بنا اور 2016 میں پکڑا گیا۔ 22سال تک کہاں تھا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کاہ کہ ٹرک کوئی ماچس کی ڈبی نہیں کہ اس کا پتہ نہ چلے۔ کسٹم کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کس راستے سے آیا؟ اسمگلنگ کہاں سے ہوتی ہے؟ پشاور میں گاڑیاں اسمگل کیے جانے کا معاملہ دیکھیں۔
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ کلکٹر کسٹمز کو بلا کر کیوں نہ پوچھیں کہ پاکستان میں یہ کیا چیزیں ہورہی ہیں؟ غیر ضروری مقدمے بازی سے معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا اور پھر عدالتوں کا وقت ضائع ہوا۔ آئندہ ایسے مقدمات سپریم کورٹ نہ لائیں۔