سیاسی خانوادے اور طلباء یونینز

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملتان میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا سیاسی پاور شو جاری تھا جس کے دوران بلاول کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور سیلیکٹیڈ حکومت کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کورونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آگیا تھا اور وہ ملتان جلسے میں شریک نہ ہوسکے، تخت آصفہ کے حوالے کردیا۔

گزشتہ 60 برسوں میں رونما ہونے والی بڑی سیاسی و معاشرتی تبدیلیوں کے باوصف پاکستان میں انتخابی سیاست بڑی حد تک وراثتی کاروبار بنی ہوئی ہے۔ سیاست میں مخصوص خانوادوں کی موجودگی انتخابی مسابقت میں اضافے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سایسی خاندانوں نے دوسرے امیدواروں کے ساتھ برابری اور مساوات کی بنیاد پر انتخاب لڑنے کے بنیادی انسانی حق کو مجروح کردیا ہے۔

کسی بھی فعال جمہوریت میں ٹھوس انتخابی مقابلہ لازمی ہوتا ہے اور ایسی روایت اسی وقت قائم ہوتی ہے جب کسی ملک کے ہر فرد کو سیاست میں حصہ لینے اور مقابلے کا مساوی حق حاصل ہو۔ آئینِ پاکستان کے مطابق یہ حق ہر شہری کو دستیاب ہے تاہم عملی طور پر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ وراثتی یا خاندانی سیاست کی روایت کا پروان چڑھنا حکومت کے جواز کو کم کردیتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے معیار کو متاثر کرتا ہے اور سرپرستی وار بدعنوانی کو فروغ دیتا ہے۔ کچھ اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی دفاتر پر کم و بیش 52 فیصد قبضہ سیاسی خانوادوں اور وراثتی سیاستدانوں کا ہے۔

دوسری طرف پاک فوج ہے جس نے اپنے دورِ خدمات کے زیادہ تر عرصے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر پاکستان پر حکمرانی کی، پھر بھی یہ ادارہ خانہ بدوش سیاست کے اختتام کا باعث بنا ہے۔ اپنی حکمرانی کو مستقل کرنے کی کوشش میں تمام فوجی حکمرانوں نے طاقتور سیاسی گھرانوں کو ساتھی بنا کر اقتدار چمکانے کی کوشش کی۔

حقیقت  یہ ہے کہ ہم ابتدائی مرحلے سے قائدین کو تیار نہیں کر رہے۔ پاکستان میں کوئی ایک فرد بھی کسی کی حمایت یا رشتہ داری کے بغیر عملی سیاست کا حصہ نہیں بن سکتا۔ افلاطون نے ایک بار کہا تھا کہ جو لوگ سیاست میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہیں، ان پر کمتر افراد بالآخر حکمرانی کرتے ہیں۔

شاید سیاسی نرسریوں کے تصورات جر میرٹ پر مبنی مستقبل کی قیادت تیار کرتے ہیں، ان لوگوں کی کمزور عزتِ نفس کو نشانہ بناتے ہیں جو جمود کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ ہم طلباء یونینز کی اہمیت کو محسوس کرسکتے ہیں جبکہ ایسی یونینز اور جمہوری نظام جمہوریت پسند معاشروں میں مل جل کر آگے بڑھتی ہیں۔

ایوب خان کی حکومت کو ختم کرنے والی تحریک طلباء کے احتجاج سے شروع ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ضیاء الحق کو بھی طلباء کی طاقت سے خطرہ محسوس ہوا اور اس نے 1984ء میں طلباء یونینز پر پابندی لگا کر اپنا اقتدار بچانے کی کوشش کی۔ سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے 1989ء میں طلباء یونینز کو مختصر مدت کیلئے بحال کیا اور بعد ازاں سپریم کورٹ کے 1993ء کے فیصلے کے بہانے ایک بار پھر طلباء یونینز پر پابندی عائد کردی گئی اور آج تک یہ پابندی ہٹ نہیں سکی۔

طلباء یونینز وہ پلیٹ فارمز ہیں جہاں پاکستانی طلباء عملی طور پر سیاست اور سفارت کا فن سیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح، میرٹ پر مبنی قابل قائدین شہرت حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں طلباء یونینز وقت کی اہم ضرورت ہیں جنہیں جاگیردارانہ اور شاہی سیاست سے میرٹ پر مبنی سیاست کی طرف ایک تبدیلی قرار دیا جاسکتا ہے۔

آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے طلباء یونینز اپنے قائدین کو منتخب کرتی ہیں جو جہوریت کا اہم جوہر ہے اور پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جمہوریت کی جڑیں پھیلانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ طلباء یونینز کی موجودگی میں طاقتور ترین عناصر بھی ان کے جائز مطالبات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔

وطنِ عزیز پاکستان میں سیاسی خانوادوں کی موجودگی اور جمود نے ملک کے نام نہاد جمہوری نظام کی افادیت پر بہت سے سوالات جنم دئیے ہیں۔ طلباء یونینز کو منشورِ جمہوریت کی طرح تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے وضع کردہ قواعد و ضوابط کے تحت کام کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔

Related Posts