بلاول بھٹو زرداری کے طرز سیاست پر مجھے شاید اعتراض ھو لیکن میں بلاول کو میں خراج تحسین پیش کرتا ھوں کہ واقعی اسکی تربیت اس لحاظ سے بہت اچھی ھوئی ہے کہ جب اسکے والد سابق صدر آصف علی زرداری بیمار ھوئے اور علالت طول پکڑ گئی تو ان کے بیٹے اور بیٹیوں خصوصاً آصفہ بھٹو زرداری نے ان کا خوب خیال رکھا اور ان کو تنہا نہیں چھوڑا۔
اس کے برعکس اگر شریف خاندان کو دیکھا جائے اور مریم نواز کی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو یہ خاندان زرداری خاندان سے ذرا مختلف نظر آتا ہے ہم اگر مریم نواز کے لڑکپن سے شروع کریں اور زمانہ طالب علمی کی بات کریں تو انہوں نے وہاں سے من مانیوں کا آغاز کیا۔
(چونکہ بچپن کی لائف کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں چنانچہ اس حوالے سے کچھ بھی لکھنا ذرا مشکل ہے) میڈیکل میں داخلے کیلئے انٹرویو میں فیل ھونے والی مریم نواز نے اپنے والد کی پاور کو استعمال کیا اور من مرضی کے نتائج حاصل کیے۔
اس کے بعد جوانی میں ان کی نظریں اپنے ہی گارڈ کیپٹن صفدر پڑیں اور ان پر راجکماری کا دل آگیا والدین کی طرف سے سخت مخالفت ھوئی لیکن اس موقع پر بھی اس لڑکی کی ضد اور انا کے سامنے اسکی ماں کلثوم نواز صاحبہ اور میاں صاحب نے ہتھیار ڈال دیے اور یوں وہ مریم نواز سے مریم صفدر اعوان بن گئیں۔
ان کی ضد اور انا یہیں پہ ختم نہیں ہوئی عمر ڈھلنے کیساتھ ساتھ انکی من مانیوں میں بھی اضافہ ہونے لگا ویسے اقتدار اور طاقت بہت بری چیز ہے مولا علی علیہ سلام کا فرمان ہے کہ طاقت،دولت اور شہرت ملنے کے بعد انسان بدلتا نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اوقات پر آجاتا ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی تھا چھوٹے سے کاروبار سے وزیراعظم تک کا سفر کرنیوالے شریف خاندان کو جب حد سے زیادہ عزت مل گئی تو وہ بھی من مانیوں پر اتر آیا۔
مریم نواز نے لاہور میں آدھی رات کو بیکری بند کرنیوالے ایک دکاندار کو اس وجہ سے اپنے گارڈز سے پٹوایا کیونکہ عمران نامی دکاندار نے بیکری کھول کر راجکماری کو سامان دینے سے انکار کردیا تھا 2013 میں مسلم لیگ ن اقتدار میں آگئی اور شاہی خاندان ایک بار پھر شاہی محل (وزیراعظم ہاؤس) میں براجمان ھوگیا۔ کہتے ہیں کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ھوتی وزیراعظم ہاؤس پہنچتے ہی مریم نواز نے کھل کر ہر طرف شارٹس کھیلنے شروع کردیے اور اپوزیشن کو اکسانا شروع کردیا اور ان کی تذلیل شروع کردی۔
انکے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوگیا آصف علی زرداری عمران خان سمیت کئی اپوزیشن رہنماؤں کیخلاف سیاسی مقدمات بنائے گئے۔ عمران خان جوکہ مقبولیت میں عروج پر پہنچ چکے تھے گوکہ وہ الیکشن ہار گئے لیکن دن بدن ان کی مقبولیت میں اضافہ ھونے لگا اور وہ ان دونوں خاندانوں کی کرپشن کو لیکر عدالتوں میں پہنچ گئے۔
انہوں نے چار حلقے کھولنے کیلئے کہا کیونکہ ان کو شک تھا کہ وہاں دھاندلی ھوئی ہے لیکن مریم نواز نے اپنے والد کو سخت رویہ اختیار کرنے کا کہا اسکے علاوہ مریم نواز نے پرویز رشید اور دوسرے رہنماؤں کیساتھ ملکر فوج کیخلاف بھی زہر اگلنا شروع کردیا۔
انہی حالات کی وجہ سے ڈان لیکس جیسے واقعات نے جنم لیا اور اس وقت کے وزیراطلاعات پرویز رشید کو استعفیٰ دینا پڑا۔ طاقت نے اس قدر اس لڑکی کو اندھا کردیا کہ وہ اپوزیشن اور فوج سمیت ہر کسی سے لڑنے پر تل گئی اور عدالتوں کو بھی لتاڑنا شروع کردیا۔
اس دوران انٹرنیشنل سطح پہ پانامہ پیپرز میں دنیا کے حکمرانوں کے نام آئے اس میں شریف خاندان اور خصوصاً میاں نوازشریف کا بھی نام آگیا پھر کیا تھا عمران خان سمیت ہر وہ شخص جن جن سے اس خاندان کی دشمنی تھی وہ سب ان کے خلاف متحد ھوگئے اور آخرکار ایک عدالتی فیصلے کے بعد میاں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ چھوڑنی پڑی۔
اس لڑکی نے اس بات سے بھی سبق نہیں سیکھا بلکہ اپنی ضد اور انا پر اڑی رہی اور اداروں کی تضحیک کرتی رہی اس دوران کلثوم نواز صاحبہ جوکہ لاھور سے الیکشن جیت چکی تھیں طبیعت خراب ھونے کے باعث لندن علاج کیلئے گئیں اور بالاخر وہیں پہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہتے ھوئے انکی وفات ھوگئی مگر یہ خاندان ان کی لاش پہ بھی سیاست کرتا رہا اور کئی ماہ تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ھونے دی یہ لڑکی اپنی مری ھوئی ماں کی پرواہ کیے بغیر ٹویٹس پہ ٹویٹس کرتی رہی۔
ماں جیسا عظیم رشتہ بھی اس نے سیاست کی نظر کردیا کیونکہ اس کیلئے سب کچھ سیاست ہی تھا دنیا کی سیاسی تاریخ اٹھا لیں شاید ہی کسی ملک میں ایسا ھوکہ کہ اپنوں کی لاشوں پر بھی سیاست کی جائے لیکن پاکستان میں یہ سب ھورہا تھا اس دوران بڑے میاں صاحب جو شاید اب تھک چکے تھے اور بوڑھے پوچکے ہیں۔
اب ان کو غصہ بھی زیادہ آنے لگ گیا حکومت ختم ھونے کے بعد وہ کچھ زیادہ ہی غصے میں آگئے اور اپنی بیٹی کی باتوں پر من و عن عمل کرنے لگے وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کی یہ بیٹی وزیراعظم بن جائے وہ اس کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔
انہوں نے سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو منانے کی کوشش کی لیکن جب ادھر سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی تو پھر یہ باپ بیٹی ملک دشمن عناصر کیساتھ ملکر اسی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تل گئے جس ملک کے وہ تین بار وزیراعظم رہ چکے تھے۔ عمران خان جوکہ اس ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پہ بنانے کا نعرہ لیکر اقتدار میں آئے لہذا انہوں نے پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ھوئے ان سے تمام مراعات چھین لیں۔
مولانا فضل الرحمن جو سالہا سال سے منسٹرز انکلیو کی زینت بنے ھوئے تھے ان کو وہاں سے نکال دیا ان پر کرپشن کے مقدمات بنانے شروع کردیے جب اپوزیشن نے دیکھا کہ ہماری دال نہیں گل رہی تو ماضی میں ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور ایکدوسرے کو جیلوں میں ڈالنے والے اکٹھے ھوگئے اور 11 جماعتوں کا ایک متحد پلیٹ فارم پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (PDM) تشکیل دیدیا جو شہر شہر جلسے جلوس کرکے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زہر اگلنے لگا میاں صاحب علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تھے اور وہیں سے ہر جلسے جلوس میں وڈیو لنک خطاب کرنے لگے۔
اس خاندان کا موت نے پیچھا نہیں چھوڑا اور میاں نوازشریف اور شہبازشریف کی والدہ شمیم اختر صاحبہ لندن میں انتقال کرگئیں جب ان کی death ھوئی اس وقت مریم نواز ایک جلسے میں تھیں۔ میت پاکستان بھجوائی گئی لیکن افسوس تین وقت کا وزیراعظم بیٹا اور پوتے میت کیساتھ نہ آئے یاد رہے میاں صاحب نے اپنی بیوی اور انکے بیٹوں نے اپنی ماں کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔
صرف ایک لڑکی کی ضد،گھمنڈ اور انا پرستی نے ایک ہنستے بستے گھر کو نہ صرف اجاڑ کر رکھ دیا بلکہ تین وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن بھی سکٹر کر رہ گئی اور اسے پورے ملک میں محض چند سیٹیں ملیں۔ اس لڑکی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان جیسے پرانے اور وفادار ساتھی میاں صاحب سے دور ہوگئے اور گوشہ نشینی اختیار کرلی جس لڑکی نے اپنے والدین اور اپنی پارٹی کو اس نہج پر پہنچا دیا وہ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو کیا فیض دے گی اور اگر وہ اس ملک کی وزیراعظم بن گئیں تو اس ملک کا بھی وہی حال کریں گی۔
جو انہوں نے اپنی پارٹی یا اپنے خاندان کا کیا ہے۔ PDM کی تمام جماعتوں خاص کر بلاول بھٹو زرداری کو ماضی سے سیکھنا ھوگا کیونکہ اسکی والدہ کی کردار کشی اور اسکے والد کو جیلوں میں ڈالنے والی میاں صاحب کی ہی جماعت تھی اور بلاول کا اتحاد آج اسی پارٹی کیساتھ ہے۔ اس وقت پارٹی کی باگ دوڑ اس ضدی اور انا پرست لڑکی کے ہاتھ میں ہے جس نے اپنی ماں اور دادی کی لاش پہ بھی سیاست کی اور وہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
مریم نواز صاحبہ کیلئے مشورہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کھویا ہے اس انا اور ضد کی وجہ سے اب آپ کی عمر ڈھلتی جارہی ہے لہذا اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں اور اپنی سیاست کو بند گلی میں نہ لے جائیں آپ تحمل کا مظاہرہ کریں سب کچھ بہتر ھوجائے گا وہ رشتے جنہیں آپ نے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا وہ تو آپ کو دوبارہ نہیں ملیں گے۔
لیکن شاید ڈائیلاگ اور صبر سے آپ وہ سب کچھ حاصل کرلیں جس کی آپ کو خواہش ہے لڑائیاں کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ھوا کرتیں آپ اپنی قابلیت کو ضائع نہ ھونے دیں اپنے بیمار والد کی خدمت کریں اور اس ملک اور اس ملک کے تمام اداروں کی تضحیک کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں اور دوسروں کو بھی اسکی تلقین کریں۔