مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں 2500 تا 3000 روپے کی نمایاں کمی

کالمز

مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں 2500 تا 3000 روپے کی نمایاں کمی
مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں 2500 تا 3000 روپے کی نمایاں کمی

کراچی: مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں غیر معمولی مندی سامنے آئی ہے، روئی کے بھاؤ میں 2500 تا 3000 روپے کی نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔ اسپاٹ ریٹ 2200 روپے کم ہوگیا۔

مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران جنرز کی جانب سے روئی کی گھبراٹ بھری فروخت اور اسپننگ ملز کی کم بھاؤ پر خریداری کرنے کی وجہ سے روئی کے بھاؤ میں فی من 2500 تا 3000 روپے کی نمایا کمی واقع ہوئی جس کی وجہ مارکیٹ میں افراتفری دیکھی گئی۔

روئی کا بھاؤ کم ہوکر فی من 17000 تا 18500 روپے ہوگیا جبکہ پھٹی کا فی 40 کلو بھاؤ 800 تا 1000 روپے کم ہوکر صوبہ سندھ میں 7000 تا 8000 روپے ہوگیا اسی طرح روئی کا اسپاٹ ریٹ بھی 2200 روپے کم ہوکر 17700 روپے ہوگیا۔

ٹیکسٹائل کی زبوحالی کے سبب عید الاضحی کے بعد روئی کے بھاؤ میں مزید کمی واقع ہونے کی توقع بتائی جاتی ہے۔ عیدالاضحی نزدیک ہونے کی وجہ سے قربانی کے جانور کی ترسیل کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا بھی مسئلہ ہے۔

عید الاضحی کی وجہ سے آئندہ ہفتہ کاروبار نہیں ہوسکے گا اور کئی ملیں بھی طویل تعطیلات کررہی ہے بلکہ APTMA نے پہلی جولائی سے مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

حکومت نے پھٹی کا مداخلاتی بھاؤ فی 40 کلو 8500 روپے مقرر کیا ہے اور وعدہ کیا تھا کے اگر پھٹی کا بھاؤ 8500 روپے سے کم ہونے کی صورت میں حکومت پھٹی کا بھاؤ مستحکم رکھنے کے لئے TCP کے ذریعے روئی کی تقریباً 10 لاکھ گانٹھیں خریدے گی۔

اس وقت پھٹی کا بھاؤ کئی علاقوں میں فی 40 کلو بھاؤ 7000 تا 7500 روپے کی نیچی سطح پر آگیا کپاس کے کاشکاروں کا مطالبہ ہے کہ حکومت کو اپنے وعدے کے مطابق TCP کے ذریعے روئی کی خریداری شروع کرنی چاھئے۔

دوسری جانب APTMA کے مرکزی رہنما جناب گوہر اعجاز نے ایک TV انٹرویو میں کہا تھا کے اس سال ان کے نمائندہ نے پنجاب حکومت کے زراعت کے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر کپاس کی فصل بڑھانے کی عرض سے تعاون کرکے گزشتہ سال کپاس کی پیداوار 32 لاکھ ایکڑ کے بجائے اس سال 50 لاکھ ایکڑ پر کپاس کی کاشت کی گئی ہے۔

جس کی وجہ سے صرف پنجاب میں کپاس کی تقریباً ایک کروڑ گانٹھوں کی پیداوار ہونے کی توقع ہے جبکہ صوبہ سندھ میں بھی بہتر کاشت کی وجہ سے 30 تا 40 ملین گانٹھوں کی پیداور ہونے کی توقع ہے۔

اس طرح ان کے کہنے کے مطابق ملک میں موسمی حالات موافق رہے تو روئی کی کل پیداوار ایک کروڑ 30 تا 40 لاکھ گانٹھوں کی ہونے کی توقع ہے۔ گوکہ حکومت نے کپاس کا پیداواری حدف ایک کروڑ 27 لاکھ 70 ہزار گانٹھوں کا مقرر کیا ہے۔ جبکہ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ پیداوار بمشکل ایک کروڑ گانٹھوں کی ہو سکتی ہے بہر حال ابھی کپاس کی پیداوار کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

صوبہ سندھ میں روئی کا فی من بھاؤ 17000 تا 18000 روپے پھٹی کا فی 40 کلو بھاؤ 7000 تا 7700 روپے صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ 18500 تا 19000 روپے جبکہ پھٹی کا بھاؤ 7500 تا 8500 روپے ہے۔ صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھاؤ فی من 17700 تا 18000 روپے پھٹی کا بھاؤ 7500 تا 8200 روپے رہا۔

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 2200 روپے کی کمی کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 17700 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔

کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں مجموعی طور پر مندی رہی۔ نیویارک کاٹن کے جولائی وعدے کا بھاؤ کم ہوکر 78 امریکن سینٹ پر بند ہوا۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 23-2022 کیلئے 42 ہزار 700 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔

بنگلہ دیش 35 ہزار 400 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
چین 33 ہزار 600 گانٹھیں خرید دوسرے نمبر پر رہا۔
تائیوان 6 ہزار 900 گانٹھیں خرید تیسرے نمبر پر رہا۔
سال 24-2023 کیلئے 1 لاکھ 87 ہزار 600 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔
چین 1 لاکھ 37 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
ترکی 24 ہزار 400 گانٹھیں خرید دوسرے نمبر پر رہا۔
ہونڈراس 10 ہزار 900 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔
برآمدات 2 لاکھ 36 ہزار 800 گانٹھوں کی ہوئی۔
چین 53 ہزار 500 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔
ویت نام 43 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان 43 ہزار 100 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔

ٹیکسٹائل ملرز نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ برآمدی یونٹس کی ایک بڑی تعداد کو بند کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ علاقائی طور پر مسابقتی توانائی ٹیرف (RCET) کو ختم کرنے کے بعد مسابقتی برتری کھو چکے ہیں۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بدھ کو وزیر اعظم شہباز شریف کو بھیجے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ RCET کی واپسی کے نتیجے میں برآمدی صنعت کا ایک اہم حصہ بند ہونے کا امکان ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات مالی سال 2021-22 میں 12.5 بلین ڈالر سے 55 فیصد بڑھ کر 19.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جس کی وجہ توانائی کے مسابقتی ٹیرف کا اطلاق تھا۔

انہوں نے کہا کہ RCET نے عالمی سطح پر صنعت کی مسابقت کو نمایاں طور پر بڑھایا اور پاکستانی مصنوعات کو خطے کے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بنایا۔

مزید برآں، پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بہتر مسابقت نے توسیع اور نئے منصوبوں میں 5 بلین ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ سرمایہ کاری نے برآمدی صلاحیت میں سالانہ 5-6 بلین ڈالر کا تخمینہ لگایا۔

اس طرح کے امید افزا رجحانات کے ساتھ، اعجاز نے زور دے کر کہا، پاکستان رواں مالی سال میں ٹیکسٹائل کی برآمدات سے 22-24 بلین ڈالر حاصل کرنے کے راستے پر تھا لیکن RCET کی واپسی، توانائی کی فراہمی میں مشکلات اور کرنسی کے نتیجے میں لیکویڈیٹی بحران کے ساتھ مل کر غیر ملکی زرمبادلہ کی رکاوٹیں قدر میں کمی نے اوپر کی رفتار کو روک دیا۔

صرف اس سال پاکستان کو ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 3.5 بلین ڈالر سے زائد کی کمی کا سامنا ہے جبکہ گزشتہ سال کی برآمدات 19.5 بلین ڈالر تھیں۔دریں اثنا سابق صدر آصف علی زرداری نے معیشت، کاٹن اور ٹیکسٹائل سیکٹر کی بحالی کے متعلق APTMA سے ملاقات کی۔

علاوہ ازیں پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کے نمائندوں پر مشتمل پاکستان اپیرل فورم کے سربراہ جاوید بلوانی نے کہا ہے کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز آرٹیکل 99ڈی کے تحت ”آمدنی‘ منافع‘ محاصلات اور حاصلات پر اضافی ٹیکس“ کے مجوزہ نفاذ پر انتہائی پریشان اور غیر مطمئن ہیں اور اسے حکومت کے ”سخت اور کاروبار مخالف“ اقدام قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 34 فیصد ہوگئی، 20 اشیائے ضروریہ مہنگی

ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان پہلے ہی برآمدات کیلئے مینو فیکچرنگ کی مسلسل بڑھتی ہوئی آپریشنل لاگت کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایک سال کا کہہ کر سپر ٹیکس دوسرے سال بھی بڑھا کر لگا دیا گیا موجودہ حکومت نے اس سے قبل علاقائی اور مسابقتی توانائی ٹیرف (rcet) کو ختم کر کے ایکسپورٹرز کیلئے برابری کی سطح پر مقابلے کی فضا اور منصفانہ مسابقتی ماحول سے محروم کر دیا ہے۔

Related Posts