پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا دوسرا سیاسی اجتماع کراچی میں ہوا، اس بار مریم نواز کی طرف سے سخت تنقید کی گئی انہوں نے فوج کا تشخص پامال کرنے پر وزیر اعظم عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک ہفتہ کے اندر دوسری بار مریم نواز ، بلاول بھٹو اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ایک ساتھ اسٹیج پر نظر آئے۔
اس سے قبل وزیر اعظم نے حزب اختلاف سے مزید سختی اور نواز شریف کو ملک واپس لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کا عزم کیا تھا، عمران خان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف ریاستی اداروں کو بدنام کررہی ہے ۔
مریم نوازنے کراچی میں اپنی تقریر میں وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بڑوں کے درمیان لڑائی میں بچوں کا کوئی کام نہیں ہے اور انہوں نے نواز شریف کے بیان کو دہرایا کہ ان کی اصل لڑائی عمران خان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ جو ان کو اقتدار میں لائے ہیں ان کے ساتھ ہے۔ مریم نوازنے یہ بھی کہا کہ حکومت اور عسکری قیادت نواز شریف کی تقاریر سے نالاں ہے اس لئے میڈیا پر پابندی عائد کردی ہے۔
مریم نے حکومت کے خلاف محاذ سنبھال لیا ہے جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) پر پابندی عائد کرنے پر بھی سخت انتباہ دیا ہے۔ اس وقت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ مریم نوازتنقید میں تمام حدودعبور کرچکی ہیں اور صرف وقت ہی یہ بتائے گا کہ وہ کامیاب ہوتی ہیں یا سیاسی انتقام کا شکار ہوگی۔
اس تمام تر صورتحال میں بلاول بھٹو محتاط دکھائی دے رہے ہیں ،وہ مریم نوازیا نواز شریف کی تقلید کرتے ہوئے اداروں کے بجائے صرف عمران خان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو آزادی مارچ میں دھچکا لگا تھا لیکن اب انہیں اپنے سیاسی حریف کو ختم کرنے کے جستجو میں بڑے ہجوم کو دیکھ کر اطمینان ہوگیا ہے۔
اس وقت اپوزیشن کی صفوں میں دراڑ دکھائی دے رہی ہے تاہم جب تک اپوزیشن کا اتحاد برقرار رہے گا ، یہ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے خطرہ ثابت ہوگا۔
یہ اتحاد غیر فطری ہوسکتا ہے اور اس میں شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں لیکن اس کا اثر عمران خان پر ضرور پڑا ہے۔
جیسا کہ بلاول بھٹونے کہا کہ جب عوام اٹھ کھڑی ہوتو طاقتور آمر بھی گر جاتے ہیں، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اب فیصلہ کن معرکہ آرائی ہوگی لیکن سیاسی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی تحریکیں شاذ و نادر ہی مطلوبہ نتائج حاصل کرتی ہیں۔