وزیر اعظم کا دورۂ ترکی اور عالمی منظرنامہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیر اعظم شہباز شریف ترکی کے 3 روزہ دورے پر انقرہ پہنچے جہاں انہوں نے پاک ترکی تعلقات اور دو طرفہ تجارت سمیت مختلف اہم امور پر گفتگو اور تبادلۂ خیال کیا۔

جب بھی اس قسم کے ریاستی سطح کے دورے ہوتے ہیں تو خطے کی صورتحال اور عالمی امور پر گفت و شنید ضرور ہوا کرتی ہے۔ اس کا کچھ حصہ تو ذرائع ابلاغ تک پہنچتا ہے تاہم بہت سا حصہ نہیں پہنچتا، کیونکہ وہ دونوں جانب سے حذف کردیا جاتا ہے۔

موجودہ عالمی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو ترکی کی اہمیت میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے کیونکہ وہ روس یوکرین جنگ کے تناظر میں یوکرین کو امن کی پیشکش کرتے ہوئے روس اور دیگر ممالک سے رابطے میں ہے۔ حال ہی میں ترکی نے قطر اور سعودی عرب کے مابین ثالث کا کردار ادا کرکے بھی اپنی اہمیت میں اضافہ کیا۔ مزید برآں 10 سال کے وقفے کے بعد ترکی نے اپنے روابط اسرائیل کے ساتھ بھی بحال کر لیے ہیں۔

ترکی وہ پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا لیکن موجودہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے دور میں ترکی اسرائیل تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری رہا۔ روس کے تیل پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں تو یہ پاکستان کیلئے موقع ضرور ہے کہ سستا تیل خریدے تاہم اس میں ایک تکنیکی نکتہ یہ ہے کہ امریکی ٹریژری ایکٹ کے تحت اگر امریکا روس سمیت کسی بھی ملک پر دو طرفہ پابندی لگاتا ہے تو اس ملک یعنی روس سے تعلقات استوار کرنے پر دو چیزیں سامنے آئیں گی۔

ایک تو وہ ملک ٹریژری ایکٹ کی زد میں آجائے گا اور اس میں تحریر ہے کہ اگر کوئی ملک پابندی زدہ مملکت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کرے تو امریکا اس ملک (یعنی ہماری دی گئی مثال میں پاکستان) پر بھی پابندی لگا سکتا ہے۔ پاکستان کو بد ترین معاشی بحران کے باعث آئی ایم ایف سے پیکیج لینا پڑ رہا ہے اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی سبسڈی پر پابندی کورونا کے دور سے پہلے لگائی گئی، دیگر ممالک سبسڈی دے رہے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟

مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ دیگر ممالک کے پاس خاطر خواہ رقم موجود ہے اور پاکستان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ہم تو بجلی کی پیداوار بھی پوری طرح حاصل نہیں کر پا رہے کیونکہ ہم تیل سے بجلی پیدا کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ جب آئی ایم ایف کسی بھی ملک کو پروگرام دیتا ہے تو اپنی شرائط منواتا ہے اور چاروں شانے چت کرکے رکھتا ہے۔ اور دیگر ممالک بھی آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ہی جا کر ایسے ملک کو پیسے دینے کیلئے راضی ہوتے ہیں۔ پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیسے نہیں مل رہے کیونکہ وہ آئی ایم ایف پروگرام کے منتظر ہیں۔

ہمارے دوست ممالک میں ترکی ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ایک موقعے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ جو ترکی کا دشمن ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے اور ہمارا دفاع سانجھا ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ جب میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، راقم الحروف اس وقت متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ شہباز شریف یو اے ای سے ہوتے ہوئے ترکی جایا کرتے تھے۔ وہ کم و بیش 3 گھنٹے تک متحدہ عرب امارات میں رکتے تھے اور مجھے ان سے گفت و شنید اور بریفنگ دینے کا موقع ملتاتھا۔

میاں شہباز شریف بہت سے پراجیکٹس لے کر ترکی جایا کرتے تھے جس کا پنجاب کو بہت فائدہ ہوا اور ترکی سے سرمایہ کاری پنجاب آئی جبکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے شہباز شریف کا یہ ترکی کا پہلا دورہ ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارا ترکی کے ساتھ فری ٹریڈ کا معاہدہ طویل عرصے سے زیرِ التوا ہے۔ گزشتہ 3 سال سے اس معاہدے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ ہم نے ترکی کو 2020ء میں 394 ملین ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ ترکی کی جانب سے 630 ملین کی برآمدات آئیں جبکہ ہمارے پاس اربوں ڈالرز کی گنجائش موجود ہے۔

ہمارا برادر اسلامی ملک ترکی کسٹم یونین کا رکن ہے۔ اس کا معاہدہ 1963 میں ہوا اور یہ حتمی مرحلے میں 1996 میں پہنچا۔ اب کسٹم یونین کی رکنیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر ترکی میں کوئی برآمدات ہوتی ہیں تو وہ یورپی یونین ممالک میں بھی جاسکتی ہیں۔ اس کا پاکستان کو بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ میں نے بطور سفیر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ ترکی کے لوگ پاکستانیوں کیلئے دل میں خاص نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

پاکستان اور ترکی میں رہنے والوں کو امید ہونی چاہئے کہ پاکستان اور ترکی کے مابین آمدورفت کیلئے رکی ہوئی ٹرین بھی چل پڑے گی۔ ہم یہ امید بھی کرسکتے ہیں کہ ہائی لیول اسٹرٹیجک کو آپریشن دوبارہ فعال ہوجائے گی۔ ترکی جیو پولیٹیکل منظر نامے میں ایک اہم ملک بن کر ابھر رہا ہے۔

قطراور سعودی عرب کے علاوہ ترکی نے آرمینیا اور آذر بائیجان کے مابین بھی ثالثی کے فرائض سرانجام دئیے اور اب روس اور یوکرین کے مابین عسکری آپریشن جیسے سنگین معاملے پر بھی ترکی خاصا فعال نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے رجب طیب اردگان سے شخصی تعلقات پاکستان اور ترکی کے مابین دو طرفہ تعاون میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

دونوں ممالک عالمی منظر نامے میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور ہمارا دفاع پاک فوج جیسے ادارے کے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے جبکہ یہ دونوں ممالک او آئی سی کے رکن ہونے کی حیثیت سے ایک طاقتور اسلامی قوت کے طور پر بھی ابھر سکتے ہیں جسے عالمی برادری خاصی دلچسپی کی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

Related Posts