بلیو ٹک چھننے پر کئی امریکی ادارے مشتعل، ٹوئٹر کو ادائیگی نہ کرنے کا فیصلہ

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امریکہ کے کئی خبر رساں اداروں نے بلیو ٹک کیلئے ٹوئٹر کو ادائیگی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ ادارہ ٹوئٹر پر تصدیق شدہ چیک مارک اسٹیٹس حاصل کرنے کے لیے ماہانہ فیس ادا نہیں کرے گا۔

انہوں نے یہ اعلان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ”ویریفائیڈ بیج“ واپس لئے جانے کے چند گھنٹے بعد کیا۔

بلیو ٹک پہلی مرتبہ2009 میں ٹوئٹر پر متعارف کروایا گیا تھا جس کا مقصد مشہور لوگوں، حکومتی اداروں سمیت میڈیا اور کاروباری اکاؤنٹس کی تصدیق کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھارتی عدلیہ کیلئے مثال بن گیا

شروع میں ٹوئٹر کسی بھی مشہور صارف کا ہینڈل خود ہی ویریفائی کر کے اسے بلیو ٹک دے دیتا تھا، تاہم اس کے بعد ٹوئٹر نے اپنی پالیسی نرم کرتے ہوئے صارفین کو بلیو ٹک حاصل کرنے کے لیے درخواست دینے کا آپشن دیا تھا۔ جس کے بعد عام صارفین بھی کچھ تصدیقی مراحل سے گزر کر بلیو ٹک حاصل کر سکتے تھے۔

ٹویٹر کی نئی پالیسی کے مطابق، تصدیق شدہ (ویریفائیڈ) چیک مارکس اب صرف ادا شدہ سبسکرپشن کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں۔

اداروں کو گولڈن چیک مارکس حاصل کرنے کے لیے ماہانہ ایک ہزار ڈالر خرچ کرنا ہوں گے جب کہ دیگر افراد امریکہ میں سات ڈالر کی ابتدائی قیمت کے عوض نیلے رنگ کے چیک حاصل کرسکتے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کے ترجمان نے مزید کہا کہ، ”ہم ذاتی اکاؤنٹس پر ٹویٹر بلیو کے لیے رپورٹرز کو بھی معاوضہ نہیں دیں گے، سوائے اس کے کہ صوتحال غیر معمولی ہو، جہاں یہ حیثیت رپورٹنگ کے مقاصد کے لیے ضروری ہو۔“

روئٹرز کے مطابق عملے کو بھیجے گئے میمو کے مطابق امریکہ سے تعلق رکھنے والی ایک جرمن میڈیا کمپنی پولیٹیکو نے بھی اپنے عملے کے ٹوئٹر بلیو ویریفکیشن کے لئے ادائیگی کرنے سے انکار کردیا ہے۔

قبل ازیں، ٹویٹر نے اعلان کیا تھا کہ یکم اپریل سے متعدد اکاؤنٹس چیک مارکس سے محروم ہو جائیں گے، کیونکہ سوشل میڈیا کمپنی نے اپنے میراثی تصدیق شدہ پروگرام کو ختم کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایگزیوس نے اس سے قبل اطلاع دی تھی کہ وائٹ ہاؤس بھی اپنے عملے کی آفیشل ٹویٹر پروفائلز کی تصدیق جاری رکھنے کے لیے ادائیگی نہیں کرے گا۔

Related Posts