سینیٹ الیکشن، حکومتی اتحاد کمزور، جوڑ توڑ شروع، نتیجہ کیا نکلے گا ؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

senate election

ملک میں ایوان بالا کے انتخابات کا بگل بجتے ہی چہار سو سیاسی افراتفری کا ماحول بن چکا ہے ،حکومت نے اس بار سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے لیکن اس کے باوجودجہاں گھوڑوں کی خرید و فروخت کیلئے بولیاں لگائی جارہی وہیں حکومت کے اتحادی بھی موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں اور سینیٹ الیکشن میں ووٹ کے عوض مطالبات کی منظوری چاہتے ہیں ۔ ملک میں سینیٹ الیکشن کتنے اہم ہیں اور اس وقت پارٹیوں کی پوزیشن کے حساب سے سیٹوں کی تقسیم کیسے ممکن ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

سینیٹ انتخاب
ہر 3 سال بعد سینیٹ کی آدھی نشستوں کیلئے انتخابات منعقد کئے جاتے ہیں اور آدھے ارکان 6 سال مقررہ مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور نئے ارکان ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔پاکستان میں مارچ 2018ء میں گزشتہ سینیٹ الیکشن میں 52 ارکان کا چناؤ ہوا تھا جو ایوان میں موجود رہیں گے جبکہ 2015ء میں منتخب ہونے ارکان مارچ 2021 میں ریٹائر ہونگے اور ان خالی نشستوں پر الیکشن کا انعقاد کیا جائیگا۔

ایوان بالاکی مجموعی نشستیں
سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہےاور اس ایوان کے قیام کی بنیادی وجہ تمام وفاقی اکائیوں اور طاقتوں کو ایک جگہ پر نمائندگی دینا ہے۔ ایوان زیریں یا قومی اسمبلی (پارلیمنٹ) میں موجود ہر صوبے کی طرف سے برابر تعداد میں ہر ایک کی نمائندگی کا موقع اس ایوان بالا میں دیا جاتا ہے۔ اس وقت اس ایوان بالا میں 104 نشستوں میں سے 18 خواتین کی سیٹیں ہیں۔

سندھ، بلوچستان ، پنجاب اورخیبر پختونخوامیں 14 عام(جنرل)، 4 ٹیکنو کریٹ، 4 خواتین اور ایک اقلیتی سیٹ سمیت مجموعی طور پر 23 نشستیں ہیں اور یہ ملا کر 92 سیٹیں بنتی ہیں، قبائلی علاقہ جات کیلئے 8 اور اسلام آباد کیلئے 4 سیٹیں مخصوص ہیں۔

ارکان کا انتخاب
سینیٹ کے ممبران کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوتاہے ، چاروں صوبوں سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبائی اسمبلی کے ارکان کے کوٹے سے منتخب ہوتے ہیں ،فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے بارہ ارکان اسمبلی کرتے ہیں ،اسی طرح اسلام آبادکے سینیٹرز کا چناؤوقومی اسمبلی کے تمام ارکان ملکر کرتے ہیں ۔

مسلم لیگ ن کے 17 ارکان اپنی 6 سالہ آئینی مدت پوری کرکے 11مارچ میں ریٹائر ہونگے، پیپلزپارٹی کے 8‘ پی ٹی آئی 7‘ ایم کیوایم 4‘ آزاد ارکان 4‘ جے یو آئی( ف) 2‘ این پی پی 2‘ جے آئی‘ این پی‘ بی این پی کے ایک ایک‘ بی اے پی کے 3 قانون ساز گھر چلے جائینگے اور ان کی جگہ نئے ممبران ایوان بالا کا حصہ بنیں گے۔

حکومتی اتحاد
ملک میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف سندھ اور پنجاب اسمبلی میں اتحادیوں کے ساتھ ملکر سینیٹ الیکشن میں جانے کی خواہاں ہے تاہم حکومت کے اتحادیوں نے بھی حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے اپنے دیرینہ مطالبات دوبارہ پیش کردیئے اور سندھ میں اتحادی جماعت ایم کیوایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور پنجاب میں ق لیگ حکومت سے نالاں ہے جس کی وجہ سے ہارس ٹریڈنگ کے خدشات بڑھ چکے ہیں اور ووٹ کی خریدو فروخت کی صورت میں پی ٹی آئی کو ممکنہ سیٹوں میں بھی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ اتحادی حکومت سے مایوسی کے بعد اپوزیشن کے پلڑے میں وزن ڈال سکتے ہیں اور حکومت کے کمزور مہرے بھی کھسک کر اپوزیشن کی جھولی میں گرسکتے ہیں جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

سیاسی جوڑ توڑ
سینیٹ الیکشن قریب آتے ہی ملک میں ووٹوں کی بولیاں لگنا شروع ہوچکی ہیں اور ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ماضی کی روایات کے مطابق اس بار بھی کروڑوں روپے میں ووٹ کی خریدو فروخت کے علاوہ مختلف مراعات اور پیکیجز کے نام پر ووٹ خریدنے اور بیچنے کی تیاری کی جارہی ہے لیکن حکومت نے گھوڑوں کی تجارت کا راستہ روکنے کیلئے شو آف ہینڈ کیلئے عدالت سے رجوع کیا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے متعلقہ فریقین سے جواب طلب کرلیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوتا ہے یا اوپن بیلٹ سے کیونکہ یہ فیصلہ سینیٹ الیکشن کی پوری صورتحال واضح کردیگا۔

نظام رائے شماری
سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ (واحد قابل انتقال ووٹ) ایک انتخابی نظام ہے۔ اس نظام کو مختلف ممالک میں مختلف نام دیے گئے ہیں مثلاً آسٹریلیا میں ہیرکلارک سسٹم اور امریکا میں چوائس ووٹنگ۔ اس وقت یہ سسٹم آئرلینڈ اور مالٹا میں رائج ہے۔ آسٹریلیا میں اس کے ذریعے فیڈرل سینیٹ منتخب کی جاتی ہے۔

یہ طریقہ کار متناسب نمائندگی ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میں تمام کے تمام ووٹ امیدواروں کو ملتے ہیں، جماعتوں کو نہیں۔ ووٹ ٹرانسفرایبل ہوتا ہے، ووٹر اپنی پہلی اور دوسری ترجیح کے طور پر اپنے امیدواروں کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس طریقہ کار میں امیدوار کو ووٹوں کی ایک خاص شرح حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اگر ووٹر کا پہلا ترجیحی امیدوار اس شرح کے مطابق ووٹ حاصل کرلیتاہے تو پھر ووٹر کا ووٹ خودبخود دوسرے ترجیحی امیدوار کے حق میں شمار ہو جاتا ہے۔

امیدوار تیسرے ترجیحی امیدوار کا تعین بھی کرتا ہے۔ اس نظام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ووٹرکا ووٹ ضائع نہیں ہوتا۔ مالٹا اور شمالی آئرلینڈ میں یہ نظام رائج ہے، آسٹریلیا اور بھارت میں صرف سینیٹ (ایوان بالا) جبکہ آئرلینڈ میں ایوان زیریں کے لیے اس نظام سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

عددی اعتبار سے ممکنہ نتائج
انتخابی عمل کے بعد حکومتی اتحاد کے پاس 49 اپوزیشن کے پاس 51 سیٹیں رہنے کا امکان ہے تاہم آئندہ سینیٹ الیکشن میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آسکتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن تیسرے مقام پر کھڑی ہوگی،اسمبلیوں میں عددی اعتبار سے تحریک انصاف 28 نشستوں کے ساتھ پہلی، پیپلز پارٹی 19 نشستوں کے ساتھ دوسری اور مسلم لیگ ن کا 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے تیسری پوزیشن لے سکتی ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کا 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی پارٹی بننے کا امکان ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی 5 اور متحدہ قومی مومنٹ کی 3 نشستیں ہونے کا امکان ہے ۔

عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی دو دو نشستیں رہ جائیں گی۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی دو اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی بھی دو نشستیں ہوسکتی ہیں  جبکہ مسلم لیگ ق لیگ کو بھی دو نشستیں ملنے کا امکان ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے اراکین مدد سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ سینیٹرسراج الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد جماعت اسلامی کی سینیٹ میں ایک نشست رہ جائے گی۔

Related Posts