شامی اپوزیشن کی اتحادی فوج نے طوفانی پیش قدمی کرتے ہوئے بالآخر دارالحکومت دمشق کو بھی آزاد کرا لیا۔ یوں اسدی آمریت کا سورج ساٹھ برس بعد ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
خوں آشام درندہ، بشار الاسد ملک سے فرار ہوگیا۔ اس کو لے کر جانے والے طیارے کی نامعلوم مقام کی طرف جانے کے باعث اس کی موت کی متضاد اطلاعات ہیں تاہم ابھی تک کنفرم نہیں ہوا کہ وہ زندہ ہے یا دھرتی اس کے نجس وجود سے پاک ہوگئی ہے۔ اس سیاہ دور کے خاتمے پر شام بھر میں عوام کا جشن جاری ہے۔
اپوزیشن کے فوجیوں نے جن شہروں اور قصبوں کو اسدی فوج سے آزاد کرایا، وہاں قائم جیلوں اور عقوبت کدوں کے دروازے کھول دیئے اور بے گناہ قیدیوں کو رہا کر دیا۔
شامی حکومت کے ان عقوبت خانوں سے رہا ہونے والے شہریوں نے نہایت بھیانک داستانیں میڈیا کو سنائی ہیں اور قید کے دوران انسانیت سوز مظالم بیان کیے ہیں۔ ہم ان ساری داستانوں کو بیان نہیں کرسکتے اور نہ ہی تمام جیلوں اور عقوبت کدوں کی تفصیلات کی یہاں گنجائش ہے تاہم ایک جھلک آپ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ اس ایک آدھ دانے سے باقی دیگ کا آپ خود اندازہ لگا سکیں۔
آمریت کے اس تاریک دور میں شام میں لوگوں کی آواز دبانے کے لیے انہیں گرفتار کرکے کئی کئی برس تک سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کا سلسلہ ستر کی دہائی سے جاری رہا۔ چنانچہ تدمر، طرطوس اور دمشق سمیت ہر شہر بلکہ چھوٹے قصبوں میں بھی جیلوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہوگیالیکن ان میں سب سے زیادہ بدنامی دمشق کے مضافات میں واقع صیدنایا نامی جیل کے حصے میں آئی۔ جسے حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیمیں مختلف ناموں سے یاد کرتی ہیں۔
اسے ہیومن سلاٹر ہائوس، بلیک ہول، ریڈ جیل کے ساتھ دنیا کا سب سے خطرناک عقوبت کدہ بھی کہا جاتا ہے۔ اتوار کی صبح اپوزیشن نے دمشق پر قبضہ کرتے ہی اس مذبح خانے کا دروازہ کھول دیا۔ جس سے ساڑھے تین ہزار قیدی برآمد ہوئے۔ تاہم یہ سب اوپر کی منزلوں میں تھے۔ زیر زمین دو فلور اتوار کی شام تک نہیں کھولے جاسکے۔ وہ بھی قیدیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ لیکن وہاں تک رسائی کا راستہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔
قصاب یہ خفیہ راستے بند کرکے بھاگ چکے تھے۔ میڈیا پر دنیا بھر کے ماہرین سے اپیل کی گئی کہ وہ کوئی تکنیک بتائیں کہ کس طرح ان مظلوموں تک رسائی حاصل کی جائے۔ تاہم رات گئے اس کا ایک حصہ کھول دیا گیا۔ جسے القسم الاحمر یعنی ریڈ سیکشن کہا جاتا ہے۔ یہاں سے سینکڑوں قیدی رہا ہوئے۔ القسم الاحمر دراصل پھانسی گھاٹ ہے، جنہیں قتل کرنے کا فیصلہ ہوتا انہیں اس سیکشن میں منتقل کر دیا جاتا۔
صیدنایا کو عرب میڈیا میں المسلخ البشري یعنی انسانی مذبح خانہ اور السجن الاحمر سرخ جیل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گوانتانا موبے جیل اس کے سامنے عشرت کدہ ہے۔ یہاں کتنے قیدی قتل ہوئے اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ یہاں سے باہر نکلنے والی نکاسی کی لائن سے خون بہتا ہوا دیکھا گیا تھا۔ جی ہاں، انسانی خون کی ندی۔ یومیہ کم از کم 50 شامیوں کو یہاں قتل کیا جا رہا تھا۔ اس جیل کے احاطے سے ہزاروں افراد کی کھوپڑیاں بھی برآمد ہونے کا امکان ہے۔
اس جیل کے اندر ایک شمشان گھاٹ بھی ہے، جہاں قیدیوں کی باقیات کو جلایا جاتا تھا۔ یہاں 2011ء سے 2015ء تک 13 ہزار قیدیوں کا گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ اسدی حکومت نے 2017ء میں یہاں ہزاروں قیدیوں کو زندہ جلا دیا تھا تاکہ ان کی ہلاکتوں کو چھپایا اور جنگی جرائم کے ثبوتوں کو مٹایا جا سکے۔
یہاں قیدیوں کو کئی دنوں تک پانی اور کھانا نہیں دیا جاتا، حتیٰ کہ وہ اپنا ہی پیشاب پینے پر مجبور ہو جاتے، جیسا کہ ایک سابق قیدی نے انکشاف کیا تھا۔ قیدیوں کو صیدنایا میں شدید ترین تشدد کا سامنا ہوتا ہے، پائپ، دھاتی سرپٹ یا ڈنڈوں سے مسلسل مارا جاتا ہے۔ تشدد کے لیے جیل میں “بساط الريح یا طیارہ قالین” استعمال کیا جاتا ہے، جو ایک آلہ ہے، جس میں ایک فولڈنگ بورڈ پر قیدی کو لٹایا جاتا ہے اور اس کا چہرہ اوپر کی طرف کیا جاتا ہے، پھر بورڈ کے ہر حصے کو ایک دوسرے کی طرف حرکت دی جاتی ہے۔
یہاں قیدیوں کو دوا دینے یا علاج کرانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ خواتین کے لیے یہ دہرا جہنم ہے۔ عصمت دری، بلکہ اپنے مرد رشتہ داروں کے سامنے عزت لوٹنا صیدنایا کا معمول رہا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں مرد قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ صیدنایا کے ایک زندہ بچ جانے والے قیدی نے بتایا کہ قیدیوں کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ یا تو خود مر جائیں یا اپنے کسی قریبی عزیز یا جاننے والے کو مار دیں۔
نمک کے کمرے:
یہ کمرے نمک سے بھرے ہوتے ہیں، جن کی سطح تقریباً 20 سے 30 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے اور یہ قیدیوں کو ذہنی طور پر عذاب دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں ان قیدیوں کی لاشیں رکھی جاتی ہیں جو تشدد یا بھوک سے مر چکے ہوتے ہیں۔ ہر لاش پر ایک نمبر لکھا جاتا ہے، پھر اسے نمک میں 48 گھنٹے تک رکھا جاتا ہے، اس کے بعد اسے تشریں اسپتال لے جایا جاتا ہے تاکہ موت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جا سکے اور پھر اسے فوجی پولیس والے لے جا کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیتے ہیں۔
یہ جیل ہے بھی سیاسی قیدیوں خاص کر اخوان المسلمون کی قیادت اور کارکنوں کے لیے۔یہ محض ایک جھلک ہے، جو الجزیرہ نے دکھائی ہے، ورنہ صیدیانا کے مظالم پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ گوگل میں “جثث سجن صيدنايا” لکھ کر سرچ کرکے ان قیدیوں کی تصاویر بھی دیکھی جاسکتی ہیں، جنہیں بھوکا رکھ کر مارا گیا اگر ہمت ہے تو۔
کچھ داستانیں:
اتوار کو اس جیل سے رہائی پانے والے ایک دمشقی شخص کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس رب کی قسم، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہماری پھانسی کے لیے آج کا دن مقرر تھا، اب سے نصف گھنٹہ پہلے مجھ سمیت 54 قیدیوں کو تختہ دار لٹکانے کی فہرست جاری ہو چکی تھی۔ اگر اپوزیشن جنگجو صیدنایا کا دروازہ نہ توڑتے تو اب تک مجھے اور ان قیدیوں کو پھانسی دی جا چکی ہوتی۔ اس جیل سے ایسے قیدی بھی نکلے ہیں جنہیں ابھی تک نہیں معلوم کہ حافظ الاسد ( بشار الاسد کا باپ) مر گیا ہے یا زندہ ہے۔
قیدی نمبر 1100:
“میرا نام وہاں قیدی نمبر 1100 تھا۔ یہ 2019ء کی بات ہے کہ شادی کے 2 ماہ بعد مجھے حماہ شہر کے “البطاطا چیک پوائنٹ” پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا، پہلے حلب کی عسکری انٹیلی جنس برانچ اور پھر وہاں سے 3 سال کے لیے اسٹیٹ سیکورٹی میں رکھا گیا، بعدازاں حلب کی مرکزی جیل منتقل کر دیا گیا، میرے ساتھ یہاں جو ہوا، سو ہوا، لیکن میں اس 16 سالہ لڑکی کی گرفتاری اور تشدد کے نتیجے میں اس کی موت کو نہیں بھلا سکتی۔
وہ کربناک منظر میری زندگی کا روگ بن کر دماغ سے ہمیشہ کے لیے چپک گیا ہے، جب ہمارے عقوبت کدے میں یونیورسٹی کی 16 سالہ لڑکی کو لایا گیا۔ وہ لہولہاں تھی۔ میرے پاس پٹی کا کپڑا نہیں تھا، اس لیے اپنے جسم کے کپڑے پھاڑ کر اس کے سر پر پٹی باندھی۔ اس کے سر پر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ سارے بال جھڑ چکے تھے۔ دو روز تک اس کی سانس چلتی رہی اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
اس کے ساتھ ایک بزرگ خاتون اور دو خواتین ڈاکٹرز بھی قید تھیں، جن پر انقلابیوں کا علاج کرنے کا الزام تھا۔ جب کوئی قیدی تشدد سے مر جاتا تو اسے ایک کمبل میں لپیٹ کر ہمارے ساتھ ہی کمرے میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور بعد میں اسے کسی نامعلوم جگہ لے جایا جاتا۔ خواتین کے لیے اسدی جیلوں سے جہنم بھی زیادہ مناسب مقام ہوگا۔ “ہم یقین نہیں کر سکتے تھے کہ یہ حقیقت ہے کہ ہم کبھی روشنی دیکھ سکیں گے۔ خوشی اتنی بڑی تھی کہ ہم نے نعرے لگائے، تکبیریں بلند کیں اور خواہش کی کہ ہم اپوزیشن فوجیوں کو گلے لگا سکیں اور ان کے ہاتھ چوم سکیں۔” (رہائی پانے والی خاتون ہالہ ام ربیع کی الجزیرہ سے گفتگو)
صافی یاسین:
مجھے 7 مئی 2011 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد میرے لیے جسمانی اور نفسیاتی اذیت کا ایک طویل سفر شروع ہوا، جو تقریباً 14 سال تک جاری رہا۔ میں نے صيدنايا جیل میں ایک پورا سال گزارا۔ وہاں کا تشدد ایسا تھا کہ اسے بیان کرنا یا لکھنا ممکن نہیں۔ جو مناظر میں نے وہاں دیکھے، وہ میری یادداشت سے موت تک مٹ نہیں سکتے۔ میں اس ضعیف شخص کو کبھی نہیں بھول سکتا، جو خون میں لت پت تھا اور کچھ وقت بعد وفات پا گیا۔ مجھے 31 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ مگر اللہ نے اپوزیشن کی برکت سے رہائی نصیب فرما دی۔
محمد ماہر:”7 نومبر 2017 کو، مجھے حمص کے ایک چیک پوائنٹ پر گرفتار کیا گیا، ہر لمحہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے موت قریب ہے، اس قدر تشدد اور وحشیانہ طریقے تھے جنہیں ایک جانور بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن جو بات مجھے کبھی نہیں بھولے گی وہ یہ تھی کہ جب میں میزہ سیکورٹی برانچ میں تھا، ایک بس آئی جس میں کچھ قیدیوں کو منتقل کیا گیا تھا اور ان میں ایک قیدی تھا جو میرے بہنوئی سے ملتا جلتا تھا۔
میں نے پہلے دل میں کہا کہ یہ ایمن نہیں ہو سکتا، یہ ممکن نہیں کہ وہ ہو، کیونکہ اِس شخص کے دونوں پاؤں نہیں ہیں، میرا بہنوئی ایسا نہیں تھا۔ پھر میں اس کے قریب گیا اور اس سے اس کا نام پوچھا تاکہ میں شک کو یقین میں بدل سکوں، لیکن سب سے بڑا صدمہ یہ تھا کہ وہ دماغی طور پر مفلوج تھا، اس لیے وہ اپنا نام نہیں بتا سکا۔ پھر میں نے اس کی کلائی پر موجود ایک خاص کڑے سے اس کو پہچان لیا، جس پر “رضاکِ يا أمي” لکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ اس کا نام اور میری بہن کے نام کا پہلا حرف نقش تھا۔ میں نے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ اسدی حکومت نے عوامی تحریک کے آغاز یعنی مارچ 2011ء سے اگست 2024ء تک 136,614 شامیوں کو قید کرکے جیلوں میں ڈالا تھا، جن میں 3,698 بچے اور 8,504 خواتین شامل ہیں۔