سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک غیر معمولی انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ بات چیت کا مخالف نہیں ہے،اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے مفادات ایران سے اور ایران کے سعودی عرب سے وابستہ ہیں، دو طرفہ بہتر تعلقات کو فروغ دیکر ہم خطے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سے قبل دیئے گئے انٹرویو میں تہران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے علاقائی عدم تحفظ کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب بات چیت کا عمل آسان ہوگیا ہے، بائیڈن کے دور حکومت میں ہونے والے یہ مذاکرات ضروری ہیں۔اور امریکی صدر کی نئی انتظامیہ ایران کے ساتھ بارک اوباما کے دور میں کئے گئے جوہری معاہدے کو دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ہی، تہران اور ریاض کے مابین تعلقات میں تناؤ بڑھتا جارہا ہے، جس کے باعث پوری دنیا میں فرقوں کے تعلقات متاثر ہوئے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور ایران نے علاقائی تنازعات کے مخالف فریقوں کی حمایت کی ہے۔ جیسا کہ ولی عہد نے کہا ہے کہ یہ گروہ دوطرفہ تعلقات میں پیشرفت کے لئے بنیادی روکاوٹ بن رہے ہیں۔
عراقی وزیر اعظم کی جانب سے کی گئی کوششوں کے نتیجے میں حالیہ ہفتوں میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان بات چیت ہوئی ہے، اگرچہ عراق میں ہونے والی بات چیت میں اہم پیشرفت نہیں ہوئی، لیکن دونوں فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر دونوں فریقوں کی خواہش ہے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد کے تازہ انٹرویو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسٹریٹجک وژن کے ساتھ سعودی عرب کو بدلنے کے خواہاں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ریاض کے تہران کے ساتھ بہتر تعلقات ہوں، لیکن صرف اس صورت میں اگر ایران عسکریت پسندوں اور جارحانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لئے حقیقی کوششیں کرے۔
سعودی عرب خود کو یمن کے بحران سے نکالنے کا خواہاں ہے، جہاں وہ ایران سے منسلک حوثیوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایران کو بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرنا ہوگا، اگر ریاض اور تہران کے درمیان مذاکرات برقرار رہے تو وہ خوشگوار تعلقات قائم کرنے اور ماضی کی دشمنی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔