ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

طالبان کو افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیے اور اقتدار میں آئے کم و بیش 2سال ہوچکے جبکہ پاکستان اگرچہ امریکی انخلا کے نتائج سے باخبر ہے تاہم طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

پاکستان نے نئی طالبان حکومت سے روابط کے ساتھ ساتھ انہیں خبردار کیا کہ افغان سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہئے جبکہ طالبان کو کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔

اب پاک فوج نے ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں کی افغانستان میں موجودگی اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ بیان جنوب مغربی بلوچستان میں فوجی چھاؤنی پر بزدلانہ حملے کے بعد سامنے آیا جس کے نتیجے میں 9 فوجی جوانوں نے جامِ شہادت نوش کر لیا تھا۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے افغان طالبان کو دوحہ معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کیا، چاہے افغانستان تعاون کرے یا نہ کرے اور افغان سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے خلاف کارروائی کرے۔

گزشتہ سال نومبر کے دوران ٹی ٹی پی کی حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کا معاہدہ ختم ہونے پر دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ پھر پشاور، کراچی اور بلوچستان میں متعدد دہشت گردی کے حملے ہوئے۔ ٹی ٹی پی نے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے کرکے نیا محاذ کھول دیا۔

اسلام آباد سے ملکی معاملات کا جائزہ لینے والی حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم نے بار بار ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی شاخوں کا معاملہ افغان طالبان کے ساتھ اٹھایا تاہم اس کا سنجیدہ جواب نہیں ملا۔ حالیہ حملہ پاکستان اور خطے کے امن کیلئے اچھا نہیں۔

حالیہ حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی نے دہشت گردی کے حملوں سے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں پر بھی حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ افراد سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا اپنا معمول بنا چکے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر آمادہ کرنے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔

ضروری ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک جامع حکمتِ عملی تیار کرے اور اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔ کسی بھی پڑوسی ملک کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے محتاط رہنے کی بجائے دہشت گردی سے سختی سے نمٹنا ہوگا۔ ہمیں قومی مفادات اور سلامتی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ مسلح افواج دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں۔

واضح رہے کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کی بجائے جیلوں سے آزاد کرکے کٹر عسکریت پسندوں کو رہائی دے دی۔ اور جنگ بندی پر مذاکرات کی کوششوں کے باوجود ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے سے بھی انکار کردیا گیا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان افغانستان سے اپنے تعلقات کی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے اور ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جانی چاہئے۔